افغانستان سے جہاں ایک جانب غیر ملکی افواج کی واپسی کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں وہیں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔ ایسے میں امریکہ نے فریقین کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر زور دیا ہے۔
افغان فوج نے منگل کو ایک بیان میں ہلمند صوبے میں زمینی اور فضائی کارروائی کے دوران طالبان کے 100 ارکان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جب کہ بیان میں القاعدہ کے 22 جنگجوؤں کے مارے جانے کا بھی دعویٰ سامنا آیا تھا۔
تاہم طالبان کے ترجمان نے افغان فوج کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔
ترجمان نے غیر ملکی جنگجوؤں کی ان کے زیرِ اثر علاقوں میں موجودگی کی بھی تردید کی ہے۔
افغان فوج کی کارروائی میں طالبان جنگجوؤں کی مبینہ ہلاکت سے متعلق آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
فوری طور پر یہ بھی واضح نہیں ہے کہ طالبان کے خلاف افغان فورسز کی حالیہ کارروائی میں امریکی فضائیہ کی مدد طلب کی گئی تھی یا نہیں۔
SEE ALSO: امریکی فوج کے انخلا کے بعد کا افغانستان کیسا ہوگا؟امریکی محکمۂ خارجہ کے حکام نے متنبہ کیا ہے کہ طالبان اقتدار حاصل کرنے کے لیے عسکری ذرائع استعمال کر رہے ہیں تاہم انہیں تشدد میں لازمی کمی لانا ہو گی۔
امریکہ کے سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جب تک امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج موجود ہیں اس وقت تک وہ افغانستان اور اس کی سیکیورٹی فورسز کا دفاع اور حمایت جاری رکھیں گے۔
امریکی محکمہؑ خارجہ کے عہدیدار نے منگل کو کابل میں افغانستان کی صورتِ حال پر ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے امریکہ کی سفارتی کوششیں جاری ہیں۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ "امریکہ امن عمل سے دست بردار نہیں ہو رہا اور ہم طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ سنجیدگی سے اس کا حصہ بنیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
عہدیدار نے امید ظاہر کی کہ طالبان کے مذاکرات کی میز پر آنے کی انہیں پوری توقع ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے عہدیدار کا بیان آنے سے ایک روز قبل ہی امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد قطر سے افغانستان پہنچے تھے۔
زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے مذاکرات کاروں سے ملاقات کی تھی جس کی تفصیلات سے متعلق انہوں نے افغان قیادت کو بھی آگاہ کیا ہے۔
طالبان کے حملوں میں تیزی کیوں؟
امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کرنا تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ہونے والے اس امن معاہدے پر امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے تھے۔
تاہم امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک تمام افواج کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا جس کا آغاز یکم مئی سے ہو گا۔
معاہدے کے تحت افواج کے انخلا کی یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ صدر بائیڈن سامان کی منتقلی کو قرار دیتے ہیں۔
صدر بائیڈن کے انخلا کے اعلان کے بعد امریکی افواج نے افغانستان سے واپسی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ امریکی فوج کا منگل کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ اس نے ہلمند میں ایک فوجی بیس افغان آرمی کے حوالے کر دی ہے۔
دوسری جانب طالبان غیر ملکی افواج کا انخلا یکم مئی تک نہ ہونے کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور انہوں نے معاہدے کے تحت افغان حکومت سے ہونے والے بین الافغان امن مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات اکثر ڈیڈ لاک کا ہی شکار رہے ہیں۔ تاہم امریکی محکمۂ خارجہ کے حکام طالبان پر ایک مرتبہ پھر زور دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔
امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ طالبان سے ہونے والے معاہدے میں تشدد میں کمی بھی شامل ہے اور افغان سیاسی تصفیے کے لیے اس پر بات ضروری ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ طالبان القاعدہ سمیت بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق نہیں رکھیں گے اور اس طرح کی تنظیموں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال سے روکنے کے بھی پابند ہوں گے۔
طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے کی شق پر عمل درآمد نہ کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔