امریکہ کا اقوامِ متحدہ کے آزاد ماہرین کے بیان پر سخت ردِعمل

فائل فوٹو

امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کے 14 آزاد ماہرین کے ایک گروپ کے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی عام افغان بالخصوص خواتین اور بچوں کی تکالیف میں اضافہ کررہی ہے۔

ان ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ میں سات ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کے منجمد ہونے اور طالبان پر عائد بین الااقوامی مالیاتی پابندیوں سے افغانستان میں جاری انسانی بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔انھوں نے پیر کو جاری بیان میں کہا کہ افغان معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں پر صنفی بنیاد پر تشدد پہلے ہی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، لیکن امریکہ کے موجودہ اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف وہاں قحط سالی کی صورتحال ہے بلکہ صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد میں بھی اضافہ ہوگیاہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس بیان کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو مشورہ دینے والے آزاد ماہرین ،جو اقوام متحدہ کا حصہ نہیں ہیں، کا یہ بیان اقوام متحدہ کی قیادت کے عمل سےمتصادم ہے جوگیارہ فروری کے ایگزیکٹو آرڈر کا عوامی سطح پر خیر مقدم کرچکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے ساڑھے تین ارب ڈالر کے اثاثے کو افغان عوام کے مفاد میں محفوظ رکھنے اور ان کو ان تک رسائی فراہم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

ایگزیکٹو آرڈر میں صدر جوبائیڈن نے منجمد افغان اثاثوں کا نصف حصہ افغانستان کے انسانی امداد کے ٹرسٹ فنڈ کے لیے جاری کیا ہےاور باقی نصف کو نائین الیون دہشت گرد حملوں میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والے کچھ خاندانوں کو قانونی چارہ جوئی کے دوران اگر ضرورت ہوئی تو فیڈرل جج کے فیصلے کے مطابق تقسیم کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔

لاک ڈاؤن میں افغان پناہ گزین فاقہ کشی پر مجبور

ترجمان نے کہا کہ گیارہ فروری کا اقدام افغان عوام کے مفاد میں فنڈ کے ایک حصے تک ان کی رسائی کو آسان بنانے کی کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اگر ہم نے یہ کارروائی نہ کی ہوتی تو تمام اثاثے غیر معینہ مدت تک کے لے ناقابل رسائی رہتے۔

پابندیاں:

ایک گروپ کے طور پر طالبان دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے دہشت گردی سے متعلق امریکی مالیاتی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ، ان امریکی پابندیوں کو افغان مرکزی بینک اور گروپ کے زیر کنڑول دیگر مالیاتی اداروں تک توسیع دےدی گئی ہے۔

امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں طالبان رہنماوں اور پالیسی سازوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں لیکن ان کے نفاذ سے افغان معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہاہے اور انسانی بحران کو مزید گہرا کررہا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بینکوں کی زیرو رسک پالیسی اور پابندیوں پر حد سے زیادہ عملدرآمد کرنے سے انسانی ہمدردی کے اداروں کو سنگین آپریشنل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے اقوام متحدہ اور نجی شعبے کی ایک کمپنی کے ساتھ افغانستان میں فنڈ بھیجنے کے لیے کام کیا ہے تاکہ انسانی امداد کی سرگرمیوں کے لیے وسائل مہیا کیے جاسکیں۔

امدادی ایجنسیوں کے مطابق افغانستان میں ہنگامی خوراک کی عدم تحفظ کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ ملک کی تخمینہ شدہ تین کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں سے پچانوے فیصد لوگوں کے لیے مناسب مقدار میں خوراک حاصل کرنا ممکن نہیں ۔

بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ نےعطیہ دہندگان سے2022ء کے دوران افغانوں کے لیے چار ارب چالیس کروڈ ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے، لیکن اقوام متحدہ کی اس اپیل پر دنیا بھر کی اقوام نے صرف دو ارب چالیس کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

زیادہ تر مغربی عطیہ دہندگان کی توجہ ان دنوں یوکرین کے بحران پر ہے ، اسی لیے اقوام متحدہ کی اپیل کے جواب میں صرف تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد فنڈ موصول ہوئے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان کے لیے انسانی امداد کی مد میں سات سو بیس ملین ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ یوں یہ افغانستان کو عطیہ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔