امریکہ کی سینیٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متحدہ عرب امارات کو 23 بلین ڈالر کے جدید ہتھیار فراہم کرنے کے منصوبے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
سینیٹ میں بدھ کو دو قراردادیں پیش کی گئیں جن میں سے ایک متحدہ عرب امارات کو جدید لڑاکا طیارے ایف 35 اور دوسری قرارداد جدید ڈرونز کی فروخت روکنے سے متعلق تھیں۔
ایک سو ارکان پر مشتمل امریکی سینیٹ میں ووٹنگ کے دوران پہلی قرارداد کے حق میں 49 اور مخالفت میں 47 ووٹ پڑے جب کہ ڈرونز کی فراہمی کے خلاف قرارداد کے حق میں 50 ارکان نے ووٹ دیا اور 46 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم کسی بھی قرارداد کو سینیٹ میں مطلوبہ اکثریت یعنی 51 ووٹ نہ مل سکے۔
سینیٹ میں قرارداد کو روکنے میں ناکامی ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب صدر ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر اُن کے منصوبے کو روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ اپنے ویٹو کے اختیار کا استعمال کریں گے۔
دونوں قراردادیں ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی اور بوب مینڈیز اور ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال نے پیش کی تھیں۔ اسی طرح کی ایک قرارداد ایوانِ نمائندگان میں بھی پیش کی جا چکی ہے۔
SEE ALSO: عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہسینیٹ میں قرارداد پیش کرنے والے سینیٹرز کے مطابق انتظامیہ بڑی تعداد میں ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق مناسب طریقۂ کار سے نہیں گزری اور ہتھیاروں کی فراہمی کے مقصد اور سیکیورٹی سے متعلق کئی سوالات کے جواب آنا ابھی باقی ہیں۔
ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے اجلاس کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلی مرتبہ ایف 35 طیارے اور ایم کیو ریپر ڈرون مشرقِ وسطیٰ کے کسی ملک کو فروخت کر رہے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہتھیاروں کی فروخت کے منصوبے میں مشاورت کا عمل انتہائی ضروری ہے کیوں کہ یہ منصوبہ جتنا بڑا ہے اتنا ہی پیچیدہ ہے۔
سینیٹر مینڈیز سینیٹ کی فارن ریلیشن کمیٹی میں ڈیموکریٹ پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے بقول، "ایران کی جانب سے امریکی قومی سلامتی اور مفادات کو لاحق خطرات پر ہماری گہری نظر ہے لیکن ہمیں سمجھنے کی ضروری ہے کہ ایف 35 طیاروں اور مسلح ڈرونز کی فروخت سے ہمیں کن خطرات کا سامنا ہو گا۔"
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان رواں برس تعلقات قائم کرنے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے 'ابراہم اکارڈ' کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ اور امارات کے درمیان ہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ طے پایا۔
اس طرح امارات، اسرائیل کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا دوسرا ملک ہے جو امریکہ سے جدید ترین لڑاکا طیارے حاصل کرے گا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ 23 اعشاریہ تین سات بلین ڈالر کا ہے جس میں 10 بلین سے زائد کی رقم سے متحدہ عرب امارات کو 50 ایف 35 طیارے فراہم کیے جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محکمہ خارجہ کے مطابق منصوبے کے تحت تقریباً تین بلین ڈالر ایئریل سسٹم اور 10 بلین ڈالر کی لاگت سے فضا سے زمین اور فضا سے فضا میں وار کرنے والے ہتھیاروں کی فراہمی شامل ہے۔
گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق جاری ایک بیان میں وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ یہ تاریخی معاہدہ خطے میں اسٹریٹیجک منظر کو مثبت انداز میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے مخالفین اور خاص طور پر ایران اس معاہدے میں رکاوٹیں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کرے گا۔
مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ مجوزہ معاہدہ متحدہ عرب امارات کو اس قابل بنائے گا کہ وہ امریکی شراکت داروں کے ساتھ کھڑا ہو گا اور معاہدے سے اسرائیل کو خطے کے دیگر ملکوں کی فوجی برتری کے امریکی عہد میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فراہمی کے معاہدے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ جنگی ساز و سامان یمن کے تنازع میں استعمال ہوں گے۔
گزشتہ ماہ ایمنسٹی نے اپنے بیان میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فراہمی کا فیصلہ واپس لے کیوں کہ ان ہتھیاروں کی فراہمی کے بعد یمن میں جنگی جرائم کے خدشات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔