امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کی کوششوں اور افغانستان کے سیاسی اختلافات کو طاقت سے حل کرنے کا مخالف ہے۔
اُن کا یہ بیان پیر کو کابل میں صدر اشرف غنی اور اُن کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کی جانب سے الگ الگ تقریبات کے دوران صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں شدید سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
افغانستان کے الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے افغان صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے صدر غنی کو کامیاب قرار دیا تھا۔ تاہم عبداللہ عبداللہ نے انتخابات میں فراڈ اور دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے ایک متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں افغانستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کے کسی بھی اقدام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دونوں فریقین کے درمیان سمجھوتے کے لیے کام کر رہا ہے اور تمام فریقین کو اس مقصد کی طرف لے جانے میں ثابت قدم رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک متحد اور خود مختار افغانستان کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور افغانستان میں امن کے لیے کوشاں ہے۔
پیر کو کابل کے صدارتی محل میں اشرف غنی نے دوسری مدت کے لیے صدارت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس میں نیٹو کمانڈر اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور دیگر نے شرکت کی۔
دوسری جانب اسی موقع پر سپیدر پیلس میں سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی آزاد حیثیت میں صدارت کا حلف اٹھایا۔
صدر غنی کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر ہونے والے دھماکوں کو امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے دہشت گرد حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
پومپیو نے کہا کہ افغان صدر کی حلف برداری کے موقع پر دیے گئے بیان کا امریکہ خیر مقدم کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت کے لیے بات چیت اور تبادلہ خیال آئندہ دو ہفتوں کے دوران جاری رہے گا۔
پومییو نے صدر غنی کے اس بیان کا بھی خیر مقدم کیا کہ وہ 10 مارچ کو طالبان قیدیوں کی رہائی اور بین الاافغان مذاکرات کی غرض سے قومی وفد کے ناموں کا اعلان کریں گے۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایک تاریخی موقع ہے جو متحد افغانستان کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ ملک کے مستقبل اور امن کے لیے ضروری تھا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے تحت رواں ماہ بین الافغان مذاکرات کے مرحلے کا آغاز ہونا تھا جس سے قبل افغان حکومت کی قید میں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں آنی تھی۔
قبل ازیں صدر غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ قیدیوں کا معاملہ ایک جامع امن معاہدے کا حصہ ہونا چاہیے۔
ادھر اس سلسلے میں طالبان کا مؤقف ہے کہ اگر بین الافغان امن مذاکرات سے قبل طالبان قیدیوں کو رہا نا کیا گیا تو مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، چاہے وہ معاملات سیاسی یا کسی اور نوعیت کے ہوں۔
اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے امن کے لیے ضروری ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔