افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد اور طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پہلی بار اعلیٰ امریکی حکام اور طالبان میں بالمشافہ ملاقاتوں کا آغاز آج ہفتے کے روز ہوا۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ امریکی وفد سے ملاقات کے دوران دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کا نیا دور شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملا امیر خان متقی نے کہا کہ افغان طالبان کے وفد کی توجہ انسانی امداد کی جانب ہے۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ معاہدے کی پابندی کرے جو اس نے فروری 2020 میں ان کے ساتھ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے وفد نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے سینٹرل بینک کے ریزرو پر سے پابندی اٹھائے۔
وبا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکہ افغان عوام کے لیے کرونا ویکسین دے گا۔
قبل ازیں امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے حکام نے کہا تھا کہ امریکہ کا وفد طالبان کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقاتیں کرے گا۔
طالبان کے دوحہ میں موجود ترجمان سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی تھی کہ ان کے رہنما امریکہ کے وفد کے ساتھ دوحہ میں ہفتے اور اتوار کو ملاقاتیں کریں گے۔
سہیل شاہین کو طالبان نے اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے ترجمان کے طور پر نامزد کیا ہے۔
جمعے کو طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سمیت دیگر حکام کابل سے دوحہ کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبد القاہر بلخی کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ طالبان کا وفد قطر کے حکام کے علاوہ دیگر ممالک کے وفود سے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں تبادلۂ خیال کرے گا۔
طالبان کے وفد میں اطلاعات و ثقافت کے قائم مقام وزیر ملا خیر اللہ خیر خواہ اور طالبان انٹیلی جنس کے سربراہ عبد الحق واثق بھی شامل ہیں۔
رواں سال اگست کے آخر میں افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا مکمل ہوا تھا جس کے بعد یہ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان پہلی باقاعدہ ملاقات ہو گی۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکہ کے وفد میں وزارتِ خارجہ کے حکام، امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ اور خفیہ اداروں کے افسران شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق امریکہ کا وفد طالبان سے امریکی شہریوں اور افغان حلیفوں کی افغانستان سے محفوظ انخلا کے علاوہ افغانستان میں اغوا ہونے امریکہ کے شہری مارک فریچز کی بازیابی کا مطالبہ بھی کرے گا۔
امریکی حکام طالبان کو باور کرائیں گے کہ وہ افغانستان کو القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا مرکز نہ بننے دیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی حکام نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ طالبان سے ان ملاقاتوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ طالبان کی حکومت تسلیم کرنے جا رہا ہے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ اس کا انحصار اس پر ہو گا کہ طالبان ایک جامع حکومت کی تشکیل کے وعدے پر عمل کریں۔ خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی جائے اور دیگر معاملات کے علاوہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔
امریکہ کے افغانستان کے لیے کئی برس سے نمائندہٴ خصوصی کے فرائض انجام دینے والے زلمے خلیل زاد امریکہ کے وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہے۔