امریکہ نے روسی افواج کے اُن اقدامات سے متعلق خبر دار کیا ہے جنہیں مبصرین جنگی جرائم قرار دے رہے ہیں۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ روس یوکرین میں شہری آبادیوں کو تباہ کرنے کی حکمتِ عملی کی طرف بڑھ رہا ہے کیوں کہ متحارب فریقوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکہ نے شہریوں پر جان بوجھ کر کیے جانے والے حملوں کی بہت معتبر رپورٹیں دیکھی ہیں، جو جنیوا کنونشنز کے تحت جنگی جرم کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ ترجمان نے براہِ راست روس پر ایسے جرائم کا الزام عائد نہیں کیا۔
روس کی جانب سے یوکرین پر دو ہفتےسے جاری حملے کے بارے میں پرائس نے کہا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا یوکرین پر تیزی سے قبضہ کرنے کا منصوبہ واضح طور پر ناکام ہو چکا ہے۔لہٰذا وہ یوکرین کے لوگوں کا عزم کمزور کرنے کے لیے شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کی حکمتِ عملی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اس میں انہیں ناکامی ہو گی۔
دوسری طرف ماسکو نے یوکرین پر اپنے حملوں میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس نے پولینڈ کے دورے کے دوران کہا کہ انہوں نے یوکرین پر روس کے حملے کے بارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقات کی حمایت کی ہے جس میں حقوق کی تمام مبینہ خلاف ورزیوں، زیادتیوں اور متعلقہ جرائم کا جائزہ لیا جائے گا۔
ہیرس نے پولینڈ کے صدر آندریج ڈوڈا کے ساتھ وارسا میں ملاقات کی۔ ان کےدورے کا مقصد مشرقی یورپ میں نیٹو کے اتحادیوں کے لیے امریکی حمایت کا اظہارہے۔
امریکہ کی نائب صدر نے کہا کہ بالکل تحقیقات ہونی چاہیے، اور ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئےپولینڈ کے صدر نے کہا کہ ان کے لیے یہ بات واضح ہے کہ روس یوکرین میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کو کہا ہے کہ اس نے تین مارچ کو ہونے والے روسی فضائی حملے کی تحقیقات کی ہیں جس کے مطابق مبینہ طور پر چرنیہیو شہر میں 47 عام شہری مارے گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ تحقیقات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ واقعات ـ'جنگی جرائم' میں شمار ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے کہا کہ انٹرویوز اور ویڈیوز کے تجزیے بتاتے ہیں کہ اس حملے میں 'ڈم بم' گرائے گئے۔ یہ فضائی بم کسی ہدف کے تعین کے بغیر (ان گائیڈڈ) فضا سے گرائے گئےبم تھے جن سے زیادہ تر ان شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جو کھانے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
امریکی نائب صدر ہیرس کا بیان اس واقعے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جب یوکرینی حکام کے مطابق یوکرین کے شہر ماریوپول میں زچگی کے اسپتال پر روسی فضائی حملےمیں ایک بچے سمیت کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اسپتال پرحملے کو نسل کشی قرار دیا تھا۔ انہوں نے مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد 'نیٹو' سے ایک بار پھر یوکرین پر نو فلائی زون نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کے پاس طاقت ہے، لیکن آپ بظاہرانسانیت کو کھو رہے ہیں۔
ادھر روس نے اسپتال پر بمباری کے الزامات کے جواب میں اسے "جعلی خبر" قرار دیا ہے۔ روس نے کہا ہے کہ مذکورہ عمارت ایک سابقہ زچگی اسپتال تھا جس پر طویل عرصے سے فوجی قابض تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سلسلے میں بین الاقوامی قانون پر تحقیق کرنے والی امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کی فیلو ایوانا اسٹریڈنر کہتی ہیں کہ روس یقینی طور پر جارحیت کے آغاز ہی سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اسکائپ کے ذریعے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم شہریوں کی ہلاکتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایسے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جو بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں۔ یقینی طور پر ایسے بے شمار ثبوت موجود ہیں جن کی بنا پر ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ روس جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
ایوانا اسٹریڈنر نے ان واقعات کی تحقیقات کے مطالبات سے اتفاق کیا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا "مجھے ان چیزوں کے بارے میں بہت حقیقت پسندانہ ہونا پڑے گا۔ مجھے زیادہ امید نہیں ہے کہ ہم روس اور اس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو جوابدہ ٹھہرا سکیں گے۔"
انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ جنگی جرائم پر مقدمہ چلا نے والے ادارے بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت، محدود اختیارات رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ جنگی جرائم کے مقدمات اکثر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے بین الاقوامی عدالت کو بھیجے جاتے ہیں۔ لیکن اس کونسل کے مستقل رکن کے طور پرماسکو ایسی کسی بھی تجویز کو آسانی سے ویٹو کر سکتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ روس، یوکرین اور امریکہ نے اس قانون پر دستخط نہیں کیے ہیں جس کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت قائم کی گئی تھی۔ اگرچہ یوکرین نے اس کے دائرۂ اختیار کو قبول کر رکھا ہے۔
ایوانا اسٹریڈنر اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ بین الاقوامی عدالتوں کی اپنی پولیس فورس نہیں ہے اور وہ تعاون کے لیے ریاستوں پر اعتماد کرتے ہیں اور ممالک ہمیشہ تعاون نہیں کرتے۔
یوکرین میں جنگ جاری ہے اور یوکرین کے حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ جمعرات کو ترکی میں اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے دوران کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ترک صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ ٹیلی فون کال کے بعد "تنازع کے سفارتی حل کی حمایت کے لیے ترکی کی کوششوں" کو سراہا ہے۔
ترکی کا یہ اقدام ان کئی سفارتی کوششوں میں شامل ہے جس کا مقصد بگڑتے ہوئے تنازع کو حل کرنا ہے۔ اسرائیل اور فرانس دونوں ہی پوٹن کے ساتھ براہِ راست بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرنے کی کوشش رہے ہیں۔