پاک امریکہ تعلقات پیچیدہ لیکن دیرپا ہیں: آرمیٹیج

پاک امریکہ تعلقات پیچیدہ لیکن دیرپا ہیں: آرمیٹیج

سابق امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہماری توقعات بہت زیادہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرحد پار دراندازوں کو روکا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہتھیاروں کی سپلائی اور بموں میں استعمال ہونے والے کیمیکل فرٹلائز کو سرحد پار پہنچنے سے روکا جائے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے

امریکہ کے سابق نائب وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمیٹیج کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاک امریکہ تعلقات کی صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ امریکہ پاکستان کی جانب ایک قدم آگے بڑھانے کے بعد دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات پیچیدہ لیکن دیرپا ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ میں سمجھتا ہوں کے 2005-2006 کے دوران پاکستان میں کچھ واقعات رونما ہوئے۔ ایک یہ کہ طالبان پاکستان میں دوبارہ اکٹھے ہو رہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کچھ لوگ ماضی کی رویتی حکمتِ عملی کے تحت افغانستان کے لیے پشتونوں کی حمایت کرنا چاہتے تھے۔ 2001 سے پہلے یہ پالیسی تقریباً دس سال تک جاری رہی تھی۔ مگر دوسری طرف امریکہ نے بھارت کے ساتھ اپنی سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا اعلان کر دیا تھا تو بہت سے پاکستانی راہنماؤں نے بھارت کی طرف سے تاریخی خطرات کو مدِنظر رکھا اور یہ ایک وجہ تھی کہ پاکستان افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرتا۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ان دو وجوہات کی بنا پر پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کی۔ اور سب سے بڑھ کر اگر پاکستان کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستانی راہنماؤں کو کبھی یہ یقین نہیں ہوا کہ امریکہ پاکستان کی مدد برقرار رکھے گا۔ کیونکہ تاریخی طور پر اگر میں درست ہوں تو 1947ء سے لے کر اب تک امریکہ نے 6 مرتبہ پاکستان کی امداد بند کی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان وہ کر رہا ہے ، جس کی اس سے توقع کی جا رہی ہے۔سابق امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہماری توقعات بہت زیادہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرحد پار دراندازوں کو روکا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہتھیاروں کی سپلائی اور بموں میں استعمال ہونے والے کیمیکل فرٹلائز کو سرحد پار پہنچنے سے روکا جائے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے۔ جس میں وزیرستان اور چند دیگر علاقوں کے آپریشن شامل ہیں۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوششوں میں ان کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک ملی جلی صورتِ حال ہے۔

http://www.youtube.com/embed/u0J7y6njpik

وائس آف امریکہ نے رچرڈ آرمیٹیج سے امریکہ کی جانب سے پاکستانی کی فوجی امداد کی حالیہ بندش کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں کہا کرتا تھا کہ پاکستان کے لیے ہم دو قدم آگے بڑھتے ہیں اور ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ہم ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں اور دو قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی امریکہ کی ناراضگی کی وجہ تھی۔ مگر کانگریس ، سینیٹ اور امریکی انتظامیہ نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں پاکستان کے ساتھ چلنا ہے اور انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔

اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر سابق امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی فوج اور سول سوسائٹی میں جو غصہ دیکھنے میں آیا ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ انہیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ مگر جیسا کہ امریکی انتظامیہ کے اہلکاروں نے بھی کہا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کا کوئی ریاستی اہلکار جانتا تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود ہے۔

پاکستان کی جانب سے امریکی سفارت کاروں پر سفری پابندیوں پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے امریکہ کو یہ بتانے کے لیے ایسا کیا ہے کہ ان کے پاس اور بھی راستے ہیں۔ اور وہ اپنے ملک میں ہمارے لیے چیزوں کو مشکل یا آسان کر سکتے ہیں۔ مگر امریکہ سفارتی عملے پر یہ پابندی ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بات چیت کر رہا ہے۔

رچرڈ آرمیٹیج سے پوچھاگیا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تعلقات دوبارہ اچھے ہو سکیں گے تو انہوں نے کہا کہ شاید کچھ عرصے تک تو نہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ضرورت کی خاطر ہمارے اور پاکستان کے تعلقات رہیںٕ گے۔ پاکستانی شہریوں کی مشکلات اتنی زیادہ ہوتی جا رہی ہیں کہ امریکہ پاکستان کی مدد جا ری رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے 18کروڑ سے زیادہ عوام کو ایک بہتر حکومت اور بہتر مستقبل ملنا چاہیے۔ میرے خیال میں اس معاملے پر زیادہ تر امریکی اس خیال سے متفق ہیں۔

دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے سابق نائب وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ ہمیں میڈیا کی بجائے آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے ۔ اور دوسرا یہ کہ امریکہ پاکستانی سول سوسائٹی اور فوج کی امداد جاری رکھے۔ مگر یہ امداد کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے کچھ عرصے تک ہم صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں۔