بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی نے جمعرات کو عدالت عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ اُس کے رہنما کو سنائی گئی موت کی سزا مسترد کی جائے، جن پر 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران نسل کشی اور شہریوں کو اذیت دینے کا الزام ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے معاون سکریٹری جنرل، محمد قمر الزماں، جن کی عمر 63 برس ہے، فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔ ضابطوں کے مطابق، جمعرات کو اپیل دائر کرنے کا آخری دِن تھا۔
گذشتہ سال، تین نومبر کو سپریم کورٹ نے جنگ آزادی کے دوران، اجتماعی ہلاکتوں، قتل، اغوا، اذیت، زنا بالجبر اور دیگر الزامات پر اُنھیں سنائی گئی موت کی سزا برقرار رکھی تھی۔
پہلی بار، اُن کے خلاف مئی 2013ء میں جنگی جرائم کی خصوصی عدالت نے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔ اُن کے وکیل خوندکر محبوب نے جمعرات کو بتایا کہ قمرالزماں چاہتے ہیں کہ اُن کے خلاف فیصلہ اور سزا دونوں کو واپس لیا جائے۔
عدالت نظر ثانی کی درخواست کی سماعت اتوار سے شروع کرے گی۔
اِن مقدمات پر تشدد انگیز احتجاجی مظاہرے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے لیے بڑے چیلنجوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں، جنھوں نے جنگی جرائم کے بارے میں تفتیش 2010ء میں شروع کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
دسمبر 2013ء میں، جنگی جرائم کے جرم پر جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ رہنما، عبد القادر ملا کو پھانسی دے دی گئی تھی، جس سے قبل عدالت عظمیٰ نے اُن کے خلاف خصوصی ٹربیونل کی جانب سےسنائی گئی عمر قید کی سزا مسترد کر دی تھی۔
سنہ 1971 کی جنگ آزادی کے الزام پر اب تک اُنہی کو موت کی سزا ہوئی، جس پر عمل درآمد کیا گیا۔
اِن سرکاری الزامات پر مذہبی حلقے سخت برہم ہیں، جن کا الزام ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف چلائی گئی اس مہم کے محرکات سیاسی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد حزب مخالف کو کمزور کرنا ہے۔
سنہ 2013 میں ہونے والے مظاہروں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں مذہبی جماعت کے سرگرم کارکن اور مسلح افواج کے اہل کار شامل تھے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ٹربیونل کا ضابطہ کار بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔