افغان صدر اشرف غنی نےکہا ہے کہ ’’ماسوائے پاکستان، افغانستان میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے تمام علاقائی ملک تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ اِس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان کو ’’مایوس کُن‘‘ قرار دیتے ہوئے، مسترد کیا ہے۔
افغان صدر نے یہ بات ہفتے کے روز وارسا میں دو روزہ نیٹو سربراہ اجلاس کے دوسرے اور اختتامی دن خطاب کرتے ہوئے کہی۔ بقول اُن کے، ’’چار فریقی امن عمل میں یقین دہانی کے باوجود، عملی طور پر، اُن (پاکستان) کی جانب سے اچھے اور برے دہشت گردوں کی خطرناک تمیز جاری ہے‘‘۔
اُن کا حوالہ افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار فریقی گروپ کی جانب تھا، جو افغان تنازع کے پُرامن تصفیے کے سلسلے میں کام کر رہا ہے۔
اشرف غنی کے بقول، ’’پاکستانی سکیورٹی افواج ملک دشمن پاکستانی طالبان سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف تو کارروائی کر رہی ہے۔ تاہم، افغان طالبان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا‘‘، جو مبینہ طور پر پاکستان میں موجود ہیں۔
ادھر، پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، محمد نفیس زکریا نے افغان صدر کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’نیٹو سربراہ اجلاس میں افغان صدر، اشرف غنی کے بیان پر پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین قریبی تعاون وقت کی ضرورت ہے، جب کہ غیر درست مفروضوں کی بنیاد پر حکومتِ افغانستان مستقل الزام تراشی سے کام لے رہی ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’سرحد کے مؤثر انتظام کے ذریعےاور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستان دشمن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے نہ دے کر، ہم دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی میں افغان حکومت سے بھی تعاون کی توقع رکھتے ہی۔‘‘
پاکستانی حکام الزام لگاتے ہیں کہ فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسند سرحد پار کرکے افغانستان چلے جاتے ہیں، جنھیں افغان سرزمین پر پناہ ملتی ہے، جہاں سے وہ دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔
ایک دوسرے پر الزام دھرنے کے نتیجے میں، حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔