پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اب پانی تو بتدریج کم ہو رہا ہے، لیکن پانی کے باعث پیدا ہونے والے وبائی امراض نے سیلاب متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ وبائی امراض کی وجہ سے مراکزِ صحت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
صورتِ حال کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک دن میں صوبہ سندھ میں قائم 4170 فکسڈ اور موبائل طبی کیمپوں میں 45 ہزار سے زائد ایسے افراد کا علاج کیا گیا جو سیلاب سے متاثر ہوکر اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات یا پھر کیمپوں میں قیام پذیر ہیں۔
صوبائی حکام کے مطابق سیلابی پانی سے مجموعی طور پر 1082 صحت کے مراکز کو نقصان پہنچا ہے جن میں 917 ہیلتھ یونٹس جزوی طور پر جب کہ 165 مراکز مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے اُن فعال اسپتالوں اور صحت کے مراکز پر انتہائی رش دیکھا جارہا ہے جہاں صحت کی بعض سہولیات موجود ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ان مریضوں میں بڑی تعداد اس وقت پیٹ کی بیماریوں، جلدی بیماریوں، ملیریا، ڈینگی، سانپ اور کتے کے کاٹنے اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کی ہے۔
حکام اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اسہال، پیچش اور سانس کے انفیکشن کے کیسز میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جب کہ جلد کی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں ملیریا کیسز کی تعداد بھی روزانہ اوسطاً 600 سے زائد ہوچکی ہے۔ صوبے بھر میں ملیریا کے اب تک چار ہزار سےزائد مریض رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ ڈینگی کے سب سے زیادہ کیسز کراچی میں 8 ہزار 976 رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں جلدی امراض کا شکار افراد کی تعداد 8 ہزار 226 ہوچکی ہے جب کہ پیٹ کے امراض کا شکار مریضوں کی تعداد بھی 8 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یکم جولائی سے اب تک سانپ کے کاٹنے کے 134 اور کتے کے کاٹنے کے 704 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سردیوں کی آمد کے باعث سانس کی بیماریوں کا خدشہ
سندھ کے ضلع مٹیاری میں مختلف طبی کیمپس میں خدمات انجام دینے والے آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر فیاض عُمرانی کا کہنا ہے کہ اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ سردیوں کا موسم قریب آنے پر سانس کے امراض میں مزید تیزی سے اضافہ ہوگا۔
اُن کے بقول اگر یہ بیماری بگڑ جائے تو پھر نمونیہ کے کیسز کی شکل اختیار کرجائیں گے جس کا بچے سب سے زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صحت کے فعال بڑے اداروں جیسا کہ ضلعی اسپتالوں وغیرہ پر بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے کیوں کہ زیادہ تر بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے اکثر یونٹس اس وقت غیر فعال ہیں یا اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اُن کے بقول بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے معاشی طور پر اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ وہ صحت کی سہولیات تک رسائی کرنے کی بھی استطاعت تک نہیں رکھتے، وہ گاڑیوں کا کرایہ دینے کے قابل نہیں اور ایسے میں بہت سے دیگر امراض جیسے ذیابیطس، بلڈ پریشر اور دوسرے امراض کے لوگ بھی ادویات اور علاج سے محروم ہیں۔
دوسری جانب سڑکیں یا تو پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں یا پھر ان کی حالت انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے سفر کرنا انتہائی دشوار ہے۔ انہوں نےبتایا کہ ایسی صورتِ حال میں ادویات اور دوسرے ضروری طبی سامان کی سپلائی چین کو قائم رکھنا بھی مشکل ہے ۔
ڈاکٹر عمرانی نے مزید کہا کہ حکومت اور دیگر این جی اوز کو موبائل طبی کیمپوں کے قیام پر توجہ دینی چاہیے جہاں متعدد امراض کے ماہرین ایک ہی جگہ پر دستیاب ہوں اور ادویات بھی فوری اور وافر دستیاب ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ اگر ان امراض کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو یہ وبائی صورتِ حال بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے بہتر ماحول کی فراہمی، اچھی غذا، پینے کا صاف پانی، صحت کی بہتر سہولیات اور مچھروں کی بہتات کو روکنا اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔
عالمی ادارۂ صحت نے بھی حال ہی میں کہا کہ سیلاب کے بعد پانی سے پیدا ہونے والے امراض ملک میں بالخصوص سندھ میں سیلاب کے بعد دوسری بڑی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین کو زچگی کی صحت کی خدمات کی فوری ضرورت ہے، جن کی زندگیوں کو بروقت دیکھ بھال سے بہتر بنایا کیا جا سکتا ہے۔
الخدمت ہیلتھ سروسز کے ڈاکٹر عبدالعزیز میمن کا کہنا ہے کہ بہت سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک طبی سہولیات حاصل کرنے سے محروم اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
ادھر صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے ساتھ ان کی صحت کو لاحق مسائل پر بھر پور توجہ دی جارہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل کیمپس ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس کے ساتھ رضاکار بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحت اور غذائیت کے سنگین بحران کے پیش نظر سیلاب زدگان کی حفظان صحت ، رہائش، خوراک، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ہر ضرورت مند تک اس کی رسائی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔