حالات و واقعات اور زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار اسے انتہائی حساس معاملہ قرار دے رہے ہیں
ملالہ یوسف زئی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیرستان میں عسکری آپریشن کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کےمطابق آپریشن سےمتعلق حتمی فیصلہ سیاسی وعسکری قیادت مل کرے گی، لیکن حالات و واقعات اور زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار اسےانتہائی حساس معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے بہت بڑے سوالات جڑے ہوئے ہیں۔
وزیرستان وہ علاقہ ہے جہاں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہاں دہشت گردوں نے اپنے مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں ۔ انہی ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لئے 2009ء میں یہاں فوجی آپریشن کیا گیا تھا ۔ قوی امکان تھا کہ کامیاب قرار دیئے جانے والے اس آپریشن کے بعد علاقہ دہشت گردوں سے پاک ہوجائے گا، لیکن ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علاقے سے ابھی تک دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں ہوئے۔ لہذا، سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوجی آپریشن کےباوجود دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کیوں نہیں ہوسکے؟
سیاسی صورتحال پر گہری نگاہ رکھنے والےمبصرین اورتجزیہ نگاروں کےمطابق اس کی اہم اور سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس علاقے میں جب بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی یا آپریشن کیا جاتا ہے، عسکریت پسند اپنے محفوظ ٹھکانے عارضی طور پر چھوڑ کر دوسرے علاقوں خاص کر افغانستان منتقل ہو جاتے ہیں اوروہاں سے چھپ چھپ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ظاہر ہے اس قسم کی صورتحال میں فوجی اہلکاروں کے لئے ان کا پیچھا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے وائس چئیرمین شیر محمد خان کے مطابق عسکریت پسندوں کی ٹارگٹڈ کارروائیاں سارے سال جاری رہتی ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں کھلےعام اسکولوں کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔ ملالہ پر حملہ بھی اس بات کا ثبوت ہے ۔ انہیں ذرہ سا موقع ملتا ہے وہ پھر منظم ہونے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ عسکریت پسند ایک بار کے فوجی آپریشن کے بعد دوبارہ منظم نہیں ہوں گے۔یہ اس معاملے سے جڑا دوسرا اہم سوال ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی اوردہشت گر د کارروائیوں کودیکھتے ہوئے یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ دہشت گرداپنے اثر رسوخ والے علاقوں میں دوبارہ پوری قوت سےسر اٹھا سکتے ہیں۔لہذا، ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر دوبارہ آپریشن کیا گیا اور پھر بھی اس کے خاطرخواہ نتائج نہ نکلے تو کیا ہوگا؟
یہیں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ فوجی آپریشن ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے؟
’انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورک‘ نامی یورپی خبر رساں ادارے کے مطابق، ’اگرفوجی آپریشن واحد حل نہیں تو حکومت کو مسئلے سے نبٹنے کے لئے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانی چاہئیے۔شمالی علاقوں میں اب بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو حکومت، فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے ہوئے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنے یا معاہدہ کرنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ ایسا ہونے سے ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی خوف سے آزاد ہو جائے گی‘۔
عسکریت پسندی کو فائدہ
سوات میں ملٹری کے ترجمان کرنل عارف محمود کا کہنا ہے، ’عسکریت پسندوں کو جس چیز سے فائدہ پہنچتا ہے وہ ہے پولیس کے ناکافی وسائل اور ناقص ٹریننگ ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کیسز میں پولیس عدالتوں میں تسلی بخش ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے اوریوں پکڑے گئے دہشت گرد رہائی پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘۔
سوات، دیراور دیگر علاقوں میں بےروزگاری بھی عسکریت پسندی کی طرف مائل کرنےکی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر حکومت نوجوانوں کوروزگار فراہم کردےتو عسکریت پسندی کے خلاف بہت بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ان علاقوں میں تعمیر ی کام کر کے بھی تشدد پسندعناصر کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔
فاٹا اور افغان سرحد کےقریبی علاقوں کےلوگ اب بھی طالبان کے خوف تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان کو ہردم یہ خوف رہتاہے کہ پیسے اور سہولتوں کے لالچ میں آکر ان کے بچے کسی دہشت گرد تنظیم کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ اس ساری صورتحال کو مد نظررکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فوجی آپریشن کا فیصلہ شمالی علاقوں کی پیچیدہ صورتحا ل کے تما م پہلووٴں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جانا چاہئیے۔
اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کےمطابق آپریشن سےمتعلق حتمی فیصلہ سیاسی وعسکری قیادت مل کرے گی، لیکن حالات و واقعات اور زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار اسےانتہائی حساس معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے بہت بڑے سوالات جڑے ہوئے ہیں۔
وزیرستان وہ علاقہ ہے جہاں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہاں دہشت گردوں نے اپنے مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں ۔ انہی ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لئے 2009ء میں یہاں فوجی آپریشن کیا گیا تھا ۔ قوی امکان تھا کہ کامیاب قرار دیئے جانے والے اس آپریشن کے بعد علاقہ دہشت گردوں سے پاک ہوجائے گا، لیکن ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علاقے سے ابھی تک دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں ہوئے۔ لہذا، سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوجی آپریشن کےباوجود دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کیوں نہیں ہوسکے؟
سیاسی صورتحال پر گہری نگاہ رکھنے والےمبصرین اورتجزیہ نگاروں کےمطابق اس کی اہم اور سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس علاقے میں جب بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی یا آپریشن کیا جاتا ہے، عسکریت پسند اپنے محفوظ ٹھکانے عارضی طور پر چھوڑ کر دوسرے علاقوں خاص کر افغانستان منتقل ہو جاتے ہیں اوروہاں سے چھپ چھپ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ظاہر ہے اس قسم کی صورتحال میں فوجی اہلکاروں کے لئے ان کا پیچھا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے وائس چئیرمین شیر محمد خان کے مطابق عسکریت پسندوں کی ٹارگٹڈ کارروائیاں سارے سال جاری رہتی ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں کھلےعام اسکولوں کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔ ملالہ پر حملہ بھی اس بات کا ثبوت ہے ۔ انہیں ذرہ سا موقع ملتا ہے وہ پھر منظم ہونے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ عسکریت پسند ایک بار کے فوجی آپریشن کے بعد دوبارہ منظم نہیں ہوں گے۔یہ اس معاملے سے جڑا دوسرا اہم سوال ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی اوردہشت گر د کارروائیوں کودیکھتے ہوئے یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ دہشت گرداپنے اثر رسوخ والے علاقوں میں دوبارہ پوری قوت سےسر اٹھا سکتے ہیں۔لہذا، ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر دوبارہ آپریشن کیا گیا اور پھر بھی اس کے خاطرخواہ نتائج نہ نکلے تو کیا ہوگا؟
یہیں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ فوجی آپریشن ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے؟
’انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورک‘ نامی یورپی خبر رساں ادارے کے مطابق، ’اگرفوجی آپریشن واحد حل نہیں تو حکومت کو مسئلے سے نبٹنے کے لئے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانی چاہئیے۔شمالی علاقوں میں اب بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو حکومت، فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے ہوئے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنے یا معاہدہ کرنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ ایسا ہونے سے ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی خوف سے آزاد ہو جائے گی‘۔
عسکریت پسندی کو فائدہ
سوات میں ملٹری کے ترجمان کرنل عارف محمود کا کہنا ہے، ’عسکریت پسندوں کو جس چیز سے فائدہ پہنچتا ہے وہ ہے پولیس کے ناکافی وسائل اور ناقص ٹریننگ ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کیسز میں پولیس عدالتوں میں تسلی بخش ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے اوریوں پکڑے گئے دہشت گرد رہائی پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘۔
سوات، دیراور دیگر علاقوں میں بےروزگاری بھی عسکریت پسندی کی طرف مائل کرنےکی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر حکومت نوجوانوں کوروزگار فراہم کردےتو عسکریت پسندی کے خلاف بہت بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ان علاقوں میں تعمیر ی کام کر کے بھی تشدد پسندعناصر کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔
فاٹا اور افغان سرحد کےقریبی علاقوں کےلوگ اب بھی طالبان کے خوف تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان کو ہردم یہ خوف رہتاہے کہ پیسے اور سہولتوں کے لالچ میں آکر ان کے بچے کسی دہشت گرد تنظیم کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ اس ساری صورتحال کو مد نظررکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فوجی آپریشن کا فیصلہ شمالی علاقوں کی پیچیدہ صورتحا ل کے تما م پہلووٴں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جانا چاہئیے۔