امریکہ کے لیے پاکستان کےنامزد سفیر مسعود خان کی تعیناتی پر ماہرین کا کہنا ہے وہ ایک ایسے موقع پر اپنا عہدہ سنبھال رہے ہیں جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات قدرے مشکل کا شکار ہیں اور پاکستان میں سیاسی ہلچل کے دوران ملک میں مغرب کے خلاف منفی جذبات پائے جاتے ہیں۔
مسعود خان پیشہ ور سفارت کار ہیں اور اس سے پہلے پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے مستقبل مندوب رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر بھی رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان نے تصدیق کی تھی کہ امریکی حکومت نے مسعود خان کی بطور پاکستانی سفیر نامزدگی کو منظور کرلیا ہے۔
البتہ ان کی بطور سفیر تعیناتی پر امریکہ میں بعض حلقوں نے تنقید کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نومارچ کو امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے نام لکھے گئے ایک خط میں تین امریکی قانون سازوں اسکاٹ پیری، ڈبلیو گریگری اسٹوب اور میری ای ملر نے مسعود خان پر دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات اور ان کے لیے ہمدردی رکھنے کا الزام لگایا تھا۔
ان قانون سازوں نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس سلسلے میں مکمل تحقیق کرے۔اس سے قبل سکاٹ پیری نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسعود خان کے کاغزات نامزدگی بھی مسترد کر دے۔
SEE ALSO: امریکہ کے پاکستان میں سفیر کے طور پر ڈانلڈ بلوم کی تقرری کی توثیق، توجہ کن امور پر ہوگی؟امریکی ادارے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ اگرچہ مسعود خان پر چند ایک ہی لوگوں نے ایسے الزامات لگائے ہیں لیکن ایسے الزامات سے ان کی تعیناتی اور ان کے فرائض میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔جبکہ اس بارے میں واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں افغانستان اور پاکستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق مسعود خان ایسے کسی گروہ کے ساتھ ایسی کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہیں۔
کوگل مین نے کہا کہ مسعود خان کے لیے اس وقت بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر بطور سفیر امریکہ آئے ہیں جب پاکستان میں سیاسی طور پر ہلچل ہے اور سیاسی بیانیے میں مغرب اور امریکہ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے موقع پر عہدہ سنبھالنے جا رہے ہیں جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات قدرے مشکل میں ہیں۔
SEE ALSO: تحریک عدم اعتماد: 'امریکہ کو پاکستان میں تبدیلی سے کوئی دلچسپی نہیں'مارون وائن بام نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اور مسعود خان کے سامنے درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پاکستانی حکومت کے دور میں پہلے سے مشکلات میں گھرے تعلقات میں مزید دباؤ پیدا ہوگیا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کے افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کے قبضے کے بعدکے بیان کہ ’’افغان عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں‘‘، یوکرین جنگ کی شروعات میں ماسکو کے دورے اور جلسوں میں ڈھکے چھپے انداز میں امریکی حکومت پر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی پشت پناہی کے الزام کا ذکر کیا۔
سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں کریگ نیومارک گریجویٹ اسکول آف جرنلزم کے سینٹر فار کمیونٹی میڈیا کے ڈائریکٹر اور سینئر تجزیہ کار و صحافی جہانگیر خٹک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی جو نوعیت ہے، کسی بھی سفارت کار کے لیے ایسے میں کام کرنا مشکل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی محکمۂ خارجہ اب بھی پاکستان کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دیتا ہے۔ ان کے بقول سفارتی سطح پر بیانات میں وہ سختی نظر نہیں آ رہی جو عمومی تعلقات میں نظر آ رہی ہے۔
مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کےسول اور ملٹری تعلقات میں فرق ہے۔ سول قیادت کی جانب سے مغرب اور امریکہ مخالف نعرے بازی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن فوجی قیادت مسقبل میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں زیادہ پرامید نظر آتی ہے۔
SEE ALSO: نظر رکھے ہوئے ہیں کہ چین یا کوئی اور پابندیوں سے بچنے میں روس کی مدد تو نہیں کر رہا؛ بائیڈن انتظامیہپاکستان کی خواہش رہی ہے کہ امریکہ کشمیر کے مسئلےکے حل میں اہم کردار ادا کرے۔ کوگل مین کہتے ہیں کہ اگرچہ کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے کے لیےمسعود خان کے پاس زیادہ ’کریڈبلٹی‘ ہے لیکن یہ مسئلہ ابھی امریکہ کے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کےبقول، پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ایک باریک عدسے سے دیکھے جاتے ہیں جن میں زیادہ تر طالبان کے ساتھ بات کرنے اور خطے میں دہشت گردی کے خلاف تعاون شامل ہے۔
مسعود خان کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے جہانگیر خٹک نے کہا کہ امریکہ کے لیے جو بھی سفارتی تعیناتی ہوتی ہے اس کے پیچھے پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا بہت ہاتھ ہوتا ہے اور یہاں بھی انہیں ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔