نئی دہلی کے دورے پر آئے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے جمعے کو نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ باہمی اور عالمی امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
وہ پاکستان اورافغانستان کے دورے کے بعد جمعرات کی شام کو نئی دہلی پہنچے تھے۔ نئی دہلی کے بعد وہ نیپال روانہ ہو گئے۔
چین نے تعلقات کو معمول پر لانے اور مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ دنوں وزیرِ خارجہ کے دورے کے علاوہ دیگر کئی تجاویز پیش کی تھیں۔ لیکن رپورٹس کے مطابق ایجنڈے پر عدم اتفاق کی وجہ سے دونوں ملکوں میں سے کسی نے بھی آخر تک اس دورے کی تصدیق نہیں کی۔
تین گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ بھارت اور چین کے تعلقات معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر بڑی تعداد میں فوجی تعینات ہیں جو کہ 1996-1993 کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں۔
جے شنکر نے کہا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ وسیع تبادلۂ خیال کیا جس میں مشرقی لداخ میں سرحدی تنازع اور یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال شامل ہے۔ باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے سلسلے میں پیش رفت جاری ہے تاہم پیش رفت کی رفتار بہت سست ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کے دوران تمام تنازعات کو حل کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔ ا س وقت سرحد پر امن و سلامتی کی صورت حال نہیں ہے۔ چین کی کارروائیوں کی وجہ سے باہمی تعلقات تعطل کے شکار ہیں۔
خیال رہے کہ چین کا الزام ہے کہ ایل اے سی پر بھارت کی جانب سے کی جانے والی یک طرفہ کارروائیوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔
وزیر ِخارجہ نے کہا کہ لداخ میں اب بھی کئی مقامات پر تنازع ہے اور ان کو حل کرنے میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہم نے پیش رفت کو تیز کرنے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا ہے۔ پینگانگ جھیل پر تنازع کو حل کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔
ان کے بقول ہم نے یوکرین کی صورتِ حال پر بھی گفتگو کی لیکن کواڈ کے سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ یوکرین کے سلسلے میں ہم نے اپنا اپنا مؤقف رکھا اور اتفاق کیا کہ سفارت کاری اور مذاکرات کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قراردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغانستان کے مسئلے پر بھی بات کی اور اس سلسلے میں بھارت کی پالیسی سلامتی کونسل کی قرارداد 2593 کے مطابق ہے۔
’تنازعات کے خاتمے کے بعد دورہ کریں گے‘
قبل ازیں چینی وزیرِ خارجہ نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کیا۔ یاد رہے وانگ یی اور اجیت ڈوول سرحدی مذاکرات کے سلسلے میں اپنے اپنے ملک کے نمائندہ ہیں۔
مذاکرات کے دوران لداخ میں باقی ماندہ متنازع مقامات سے فوجوں کی جلد از جلد واپسی کی ضرورت پر زورد یا گیا ۔ دونوں نے اس سے اتفاق کیا کہ سرحد کی موجودہ صورت حال باہمی مفاد میں نہیں ہے اور سرحد پر امن و سلامتی کی بحالی باہمی اعتماد اور دوطرفہ رشتوں کے فروغ میں معاون ہو گی۔
چینی وفد نے اجیت ڈوول کو چین کے دورے کی دعوت دی جس پر انہوں نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے فوراً بعد وہ چین کا دورہ کریں گے۔
یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی پیدا ہونے کے تقریباً دو برس بعد یہ پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔ مئی 2020 میں سرحدی کشیدگی شروع ہوئی تھی جو 15 اور 16 جون کی درمیانی شب میں پرتشدد جھڑپ میں تبدیل ہو گئی جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
چینی وزیر خارجہ کے دورے پر نئی دہلی میں کسی قسم کی گرمجوشی نظر نہیں آئی۔ چین نے بھی اس کی بہت زیادہ تشہیر کی کوشش نہیں کی۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وانگ یی نے اسلام آباد میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں کشمیر سے متعلق جو بیان دیا اس سے معاملہ خراب ہو گیا بلکہ اس سے باہمی رشتوں کو دھچکہ لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دورے پر کوئی گرمجوشی نہیں تھی۔
لیکن سینئر دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ اگر بھارت یہ سوچتا ہے کہ چین کے وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ چین کی کمزوری دکھاتا ہے تو یہ بھارت کی غلط فہمی ہوگی۔ ان کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پوری دنیا میں چین کی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی اور فرانسیسی صدور اور جرمن چانسلراس سے بات کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سرحدی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں کمانڈرز سطح کے مذاکرات کے 15 ادوار ہو چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کی افواج بعض متنازع مقامات سے پیچھے ہٹی ہیں لیکن اب بھی کئی مقامات پر اختلافات برقرار ہیں۔ اس کے علاوہ ایل اے سی پر دونوں طرف سے 50، 50 ہزار فوجی جوان تعینات ہیں۔
پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ ایل اے سی پر جتنے مقامات پر تنازعات ہیں وہ سب ایک ساتھ حل ہو جائیں اور تمام مقامات سے ایک ساتھ فوجی واپس ہو جائیں۔ ان کے مطابق ایل اے سی پر اب بھی تین مقامات پر تنازعات ہیں۔ ان میں سب سے اہم دیپسانگ اور ڈیمچوک ہیں اور تیسرا متنازع مقام ہاٹ اسپرنگ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین ہاٹ اسپرنگ سے فوجیں ہٹانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن وہ دیپسانگ کو کبھی خالی نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ پاکستان تک جانے کے لیے ایک زمینی راستہ ہے۔
دورے کا مقصد کیا تھا؟
نئی دہلی میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ وانگ یی کے دورے کا اصل مقصد کیا تھا؟ اس بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ چین رواں سال کے اکتوبر یا نومبر میں پیچنگ میں منعقد ہونے والے برازیل، روس، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل گروپ برکس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ چین برکس کا موجودہ چیئرمین ہے۔ اس میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن بھی شرکت کریں گے۔
جہاں تک برکس اجلاس میں وزیرِ اعظم مودی کی شرکت کا سوال ہے تو بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک سرحدی تنازع مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا سیاسی طور پر مودی کا دورہ مشکل ہوگا۔
لیکن پروین ساہنی کے مطابق چین یہ تو چاہتا ہے کہ برکس اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی شرکت کریں لیکن بھارت کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر مودی نہیں جائیں گے تو برکس اجلاس نہیں ہوگا۔ ان کے خیال میں ایسے فورم پر بھارت کا نہ جانا اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ان کے مطابق چینی وزیرِ خارجہ نے نئی دہلی کا دورہ اس لیے کیا کہ ان کے چار ملکوں یعنی پاکستان، افغانستان اور نیپال کے دوروں میں بھارت بھی شامل تھا۔ وہ نئی دہلی سے کٹھمنڈو روانہ ہو گئے ہیں۔
حکومت کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کو برکس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے۔ قبل ازیں جب ڈوکلام میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازع پیدا ہوا تھا تو 2017 میں چین میں منعقد ہونے والے برکس اجلاس سے قبل اسے حل کر لیا گیا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ مودی کے دورے سے قبل موجودہ تنازعات بھی حل کر لیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جے شنکر کا یہ کہنا کہ دونوں ملکوں میں سرحد پر اب بھی تنازعات ہیں بھارت کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرے۔ سرحد پر کشیدگی سے بھار ت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ چین چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ امن قائم ہو اور تعلقات معمول پر آئیں لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ سرحد پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ بھارت بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے۔ اس کا ہمیشہ یہ موؐقف رہا ہے کہ مذاکرات کے توسط سے ہی مسائل حل کیے جانے چاہئیں۔
بھارت بار بار اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ جب تک ایل اے سی پر اسٹیٹس کو یعنی پہلے والی صورت حال بحال نہیں ہو جاتی، باہمی رشتے معمول پر نہیں آسکتے۔ یاد رہے کہ دونوں ایک دوسرے پر ایل اے سی کی موجودہ صورت حال کو یک طرفہ طور پر بدلنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔