جنیو اکانفرنس میں پاکستان کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے 10 ارب ڈالرز فراہم کرنے کے وعدے کو حکومت اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس رقم کا بڑا حصہ پاکستان کو قرض کی مد میں دیا جا رہا ہے جس کا لامحالہ بوجھ ملک کی معیشت پر ہی پڑے گا۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ جنیوا کانفرنس میں مشرق و مغرب سے اسلام آباد پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے اور موجودہ حکومت نے اس تاثر کو ختم کر دیا ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہے۔
پاکستان کی حزب اختلاف یہ کہتی رہی ہے کہ حکومت سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور عالمی ادارے موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں کررہے ہیں۔ تاہم حکومتی رہنما تحریکِ انصاف کے اس تاثر کو ردکرتے ہیں اور گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ ان کے دور میں پاکستان تاریخ کی بدترین سفارتی تنہائی کا شکار تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کے آٹھ ماہ کے دوران متحرک سفارت کاری دیکھنے میں آئی ہے جس کے نتیجے میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو اسے خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر عادل نجم کہتے ہیں کہ کوئی بھی ملک طویل سفارتی تنہائی سے ایک ہی دن میں نہیں نکلتا، یہ طویل سفارت کاری کے باعث ہی ممکن ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جنیوا کانفرنس عطیات کے حصول سے زیادہ پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے کیوں کہ اس میں کئی ممالک کے صدور و وزرائے اعظم اور عالمی امدادی اداروں کے سربراہان شریک ہوئے۔
عادل نجم کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنے تعلقات کو بہت 'محنت' سے خراب کیا اور اب انہیں بہتر کرنے میں اس سے زائد محنت اور وقت درکار ہوگا۔ ان کے بقول سفارت کاری اور معیشت میں بہتری کے نتائج بہت آہستہ آہستہ سامنے آتے ہیں۔
تجزیہ کار اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہنے والے علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی سفارتی طور پر مکمل تنہا نہیں ہوا اور گاہے بگاہے ایسے معاملات ہوتے رہتے ہیں جس سے پاکستان کی اہمیت پیدا ہوجاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے سفارتی کوششیں کی اور جنیوا کانفرنس میں 40 سے زائد ملکوں اور عالمی اداروں کی شرکت اس کی کامیابی کا ثبوت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'جنیوا کانفرنس میں امداد حکومتی توقع سے زائد رہی'
حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جنیوا کانفرنس عالمی برادری کی جانب سے پاکستان پر اعتماد کا اظہار ہے۔ اعتماد کا یہ اظہار ایسے وقت کیا گیا جب اندرونی سیاسی و اقتصادی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر کئی چیلنجز در پیش ہیں۔
جنیوا کانفرنس کی کوریج کرنے والے صحافی یونس خان کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے نکلنے اور اب سیلاب کے نقصانات کے ازالے کے لیے موجودہ حکومت کی متحرک سفارت کاری دیکھنے میں آئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جنیوا کانفرنس میں عالمی برادری کی جانب سے اعلان کردہ امداد حکومتی رہنماؤں کی توقع سے زیادہ رہی۔
یونس خان کا مزید کہنا تھا کہ متحرک سفارت کاری کی ایک مثال یہ ہے کہ حکومت نے چار سال کے بعد فرانس میں اپنا سفیر تعینات کیا جو کہ پیغام تھا کہ اسلام آباد پیرس سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔
اُن کے بقول یہی وجہ تھی کہ فرانس کے صدر نے پاکستان کے لیے ڈونرز کانفرنس کی میزبانی کا اعلان کیا جو بعدازاں اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں ہوئی۔
حکمراں اتحاد میں شامل پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری بلاول بھٹو زرداری کی محنت کا نتیجہ ہے۔
عادل نجم کہتے ہیں کہ پاکستان کو احساس ہو گیا ہے کہ صرف دہشت گردی کے گرد اپنی سفارت کاری کو نہیں چلایا جاسکتا، لہذا حالیہ عرصے میں اسلام آباد نے اپنی خارجہ پالسی میں تبدیلی لاتے ہوئے سیکیورٹی سے ہٹ کر دیگر امور پر بھی بات چیت شروع کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی بھی کہتی ہے کہ اس کا مرکز جیو اکنامکس ہے۔
عادل نجم نے کہا کہ اپنی فعال سفارت کاری کے تحت ہی پاکستان نے عالمی فورم بالخصوص اقوامِ متحدہ میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل اُجاگر کیے اور دنیا نے اسلام آباد کی آواز کو اہمیت دی۔
سرور نقوی نے کہا کہ اگرچہ بلاول بھٹو زیادہ تجربہ نہیں رکھتے لیکن وہ بہت شوق اور انہماک سے خارجہ امور کو چلا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسی سیاسی ریت پڑ گئی ہے کہ حزبِ مخالف دوسری جماعت کے ہر کام پر تنقید کرے گی چاہے وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔
یونس خان نے کہا کہ بلاول بھٹو کے غیر ملکی دوروں پر اعتراضات تو کیے جاتے ہیں لیکن سفارت کاری میں ملاقاتیں اور دورے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نوجوان ہیں اور دوستانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں جو کہ انہیں یورپی رہنماؤں کے قریب لے آیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں وزیرِ اعظم نے یورپ کا کوئی دورہ نہیں کیا جس کی وجہ سے یورپی ممالک اور پاکستان کے درمیان فاصلے پیدا ہوگئے تھے اور فرانس کے حوالے سے عمران خان کے بیانات سے یورپی ممالک میں تشویش پائی جاتی تھی۔
کیا بھارت پاکستان کو تنہا کرنے میں ناکام ہو گیا؟
بھارتی حکام بھی یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان دنیا میں تنہا ہو گیا ہے۔
عادل نجم کہتے ہیں کہ بھارت کی یہ واضح پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کو سفارتی طور پر دنیا میں تنہا کیا جائے اور نریندر مودی نے تو اعلان کیا کہ ان کی خارجہ پالیسی کا یہ ہدف ہے کہ پاکستان کو تنہا کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سفارتی مشکلات میں بھارت ایک اہم عنصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے بدلتے حالات میں بھارت کی سفارتی اہمیت و صلاحیت بڑھی ہے لیکن کچھ تاخیر سے سہی اسلام آباد نے نئی دہلی کی اس حکمت عملی کا توڑ نکالنے کی کوشش کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عادل نجم کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے لیے اہم ہے لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اہمیت مثبت کرادر کے طور پر منوائیں نہ کہ دنیا ہمیں ایک مسئلے کے طور پر دیکھے۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ نریندر مودی نے جنیوا کانفرنس کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان بھیک کا کٹورا لے کر دنیا میں گھوم رہا ہے اور اپنی اس بات سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان اس پر مجبور ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی اس حکمتِ عملی میں کوئی ابہام نہیں کہ وہ پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنا چاہتا ہے اور اس پر نئی دہلی نے کافی کام کیاہے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے اس پر ردِعمل دیا جارہا ہے جیسا کہ بلاول بھٹو نے گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر نریندر مودی کے حوالے سے سخت زبان استعمال کی۔