پنجگور کی سب تحصیل کلگ کے علاقے سبز کوہ سے چند کلومیٹر دور شفیع اللہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) کو زوردار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں، وہ گھبرا کر کمرے سے باہر نکلے اور اپنے ساتھی سے پوچھنے لگا کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ ان کے ساتھی نے بھی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چل کر دیکھتے کیا ہوا ہے۔
شفیع اللہ پنجگور کے اس علاقے کلگ میں ایک سرکاری ادارے کے اہلکار ہیں۔ کچھ لمحوں بعد انہیں معلوم ہوا کہ دھماکے سبز کوہ گاؤں میں ہوئے ہیں۔ وہ تیزی سے اس گاؤں کی جانب بڑھنے لگے۔ جیسے وہ وقوع پر پہنچا تو انہیں ہر جانب سے آگ کے شعلے دکھائی دیے۔
اُن کے بقول "میں جیسے ہی پہنچا تو وہاں ایک گھر اور مسجد منہدم تھی جس میں آگ لگی ہوئی تھی، میں نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے زخمیوں کو نکالنا شروع کیا اور پانچ لوگوں کو نکال کر اسپتال پہنچایا۔"
اُن کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ کبھی بھی پرسکون نہیں رہا، فائرنگ، دھماکوں کی وجہ سے لوگ ڈرے رہتے ہیں اور اب اتنا بڑا میزائل حملہ ہوا ہے کہ لوگوں میں خوف مزید بڑھ گیا ہے۔
کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی کہتے ہیں کہ واقعے میں آٹھ اور 12 سالہ دو بچیاں ہلاک جب کہ خاتون اور دو بچے زخمی ہوئے ہیں۔ واقعے سے متعلق رپورت مرتب کر کے صوبائی وزارتِ داخلہ کو ارسال کر دی گئی ہے۔
پنجگور کہاں واقع ہے؟
ایران اور پاکستان کے درمیان 900 کلومیٹر سے زائد طویل سرحد ہے اور سرحد کے دونوں اطراف بلوچ قبائل آباد ہیں۔
ایران کی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کا ضلع پنجگور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 520 کلومیٹر دور واقعہ ہے یہاں کی کل آبادی پانچ لاکھ نو ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے مقامی افراد کا بڑا ذریعہ معاش ایران اور پاکستان کے درمیان سرحد کے دونوں اطراف غیر رسمی تجارت ہے۔
مقامی صحافی برکت مری کہتے ہیں کہ یہ دھماکے سبز کوہ کے علاقے میں ہوئے جو پاک ایران سرحدی تجارتی گزرگاہ چیدگی سے 45 کلومیٹر دور پاکستان کی حدود میں ہے۔
برکت مری نے بتایا کہ حملے کے بعد سے علاقے میں شدید خوف و ہراس ہے، سبز کوہ ایک حساس علاقہ ہے جہاں منشتر آبادی ہے اور راستے انتہائی دشوار گزار ہیں۔
اُن کے بقول یہاں کی سیکیورٹی صورتِ حال کے باعث گزشتہ دو برسوں سے ضلع پنجگور میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
پنجگور کے مقامی لوگ ایران سے ڈیزل خفیہ راستوں سے بلوچستان لاتے ہیں جہاں سے صوبے اور ملک بھر میں اسے سپلائی کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مختلف عالمی پابندیوں کے باعث غیر قانونی یا غیر رسمی تجارت کا ایک بڑا حجم ہے۔
SEE ALSO:
'پاکستان اور ایران کی کشیدگی بڑھی تو بھارت بھی متاثر ہو گا'پاکستان، ایران کشیدگی: 'گیند اب تہران کے کورٹ میں ہے'وہ 'عسکریت پسند' تنظیمیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا باعث بنیںایران میں 'دہشت گردوں' کے ٹھکانوں کو ڈرونز، میزائل اور راکٹس سے نشانہ بنایا گیا: آئی ایس پی آرپاکستان اور ایران کے درمیان رسمی تجارت کے لیے سرحدی گزرگاہیں ہیں جن میں تفتان، پنجگور، مند، واشک اور گوادر شامل ہیں۔ تاہم بلوچستان میں کئی غیر رسمی سرحدی گزرگاہیں بھی ہیں جہاں سے پیٹرول اور ڈیزل بڑی مقدار میں بلوچستان میں لایا جاتا ہے۔
پنجگور کے سرحدی گاوں کے رہائشی عارف مورجہ کم عمری سے ہی غیر رسمی کاروبار سے منسلک ہیں، ان دنوں وہ ایران سے ڈیزل بلوچستان لا کر آگے سپلائی کرتے ہیں۔
ان کے مطابق کشیدگی کے بعد واضح ہے کہ انہیں آسانی سے اب اپنا کاروبار جاری رکھنے نہیں دیا جائے گا۔
عارف کے مطابق صرف ضلع پنجگور میں 19 ہزار گاڑیاں جن میں اکثریت زمباد کی ہے اور یہ رجسٹرڈ ہیں جو تیل کے کاروبار میں استعمال ہوتی ہیں۔
اُن کے بقول ضلعی انتظامیہ کے اس نظام کے تحت ہر گاڑی کو 37 روز بعد پیٹرول لانے کی اجازت ہوتی ہے، یہ نظام ایک مخصوص سیریل کے تحت چلایا جاتا ہے۔ ہر گاڑی سے ایک سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہوتا ہے یوں صرف پنجگور میں 25 ہزار سے زائد افراد اس سسٹم کے تحت روزی روٹی کما کر اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عارف کا کہنا تھا کہ "ہم جان خطرے میں ڈال کر اور سخت دشواری سے گزرنے کے بعد ایک پھیرے میں بمشکل 35 ہزار روپے کماتے ہیں۔ ہمارا واحد روزگار یہی ہے، اگر اسے بند کردیا گیا تو ہمارے بچے بھوکے مرجائیں گے۔"
جس روز ایران کی جانب سے بلوچستان میں 'جیش العدل' کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اس روز ایران کی اہم تجارتی بندرگاہ چاہ بہار میں پاکستان اور ایران کے درمیان جوائنٹ بارڈر ٹریڈ کمیٹی کا دو روزہ اجلاس کا پہلا روز تھا۔ واقعے کے بعد پاکستانی حکومت نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے وفد کو بھی واپس بلا لیا۔
ایران کے ساتھ تجارت معطل ہونے کے بھی خدشات
اس اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے کئی اہم مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہونا تھے جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر تک پہنچانا تھا۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر نائب صدر آغا گل خلجی کو خدشہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی ان کے کاروبار کو شدید متاثر کرے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایسا ماضی میں بھی ہو چکا ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت سے حکومت کو سالانہ 85 ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے۔
آغا گل خلجی کا کہنا تھا کہ بارٹر ٹریڈ معائدے کے تحت ایران سے 150 خوردنی اشیا، ڈیری مصنوعات، سیمنٹ، سریا اور دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہے جب کہ پاکستان سے چاول، تل، پھل سمیت 10 سے زائد اشیا برآمد کی جاتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ "یہ صورتِ حال ہمارے لیے بہت پریشان کن ہے، نہیں معلوم کہ اس کشیدگی کے اب کیا اثرات مرتب ہوں گے، لیکن یہ بات طے ہے کہ اس سے تجارتی سرگرمیوں پر منفی اثر پڑے گا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
صحافی زین الدین نے بتایا کہ پاکستان اور ایران ایک دوسرے پر مسلح تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے رہے ہیں، ایران نے ماضی میں پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزیاں کیں تاہم ایسا پہلی بار ہوا کہ ایران نے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی کارروائی کی ذمہ داری لی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چین کے لیے گوادر پورٹ کے ساتھ ساتھ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جب کہ ایران کی خواہش ہے کہ گوادر بندرگاہ فعال نہ ہو سکے تاکہ چاہ بہار پورٹ کی اہمیت برقرار رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے ایران پر بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کی پشت پناہی کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، گزشتہ ایک سال میں بلوچستان میں 80 دہشت گرد حملوں میں 230 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اُن کے بقول ایران کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی ہے اور یہ بات پاکستان نے 24 گھنٹے کے اندر ثابت کر دکھائی ہے۔