رسائی کے لنکس

پاکستان، ایران کشیدگی: 'گیند اب تہران کے کورٹ میں ہے'


پاکستان اور ایران کی جانب سے ایک دوسری کی حدود میں کارروائی کے بعد ماہرین علاقائی کشیدگی میں اضافے کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ دو مسلمان ممالک کے تعلقات اس نہج پر کیسے پہنچے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی خود مختاری کو نشانہ بنایا؟

یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں کیا پاکستان ایران کے ساتھ بھی کشیدگی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ حالات معمول پر لانا فریقین کے مفاد میں ہے۔

پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری کہتے ہیں کہ ایرانی حملے کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ حملہ عجلت میں کیا گیا جس کی وجہ بظاہر ایران میں عوام کی جانب سے حکومت پر بڑھتی ہوئی تنقید ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں رواں ماہ دہشت گردی کے واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ایران کے سابق جنرل قاسم سلیمانی کے مقبرے کے قریب ہونے والے دھماکوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی سرحدی صورتِ حال کئی برسوں سے ایسی ہی ہے۔

اُن کے بقول کبھی ایران کی طرف سے لوگ پاکستان گھس آتے ہیں اور کبھی یہاں سے وہاں چلے جاتے ہیں جن کو قابو کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں پاکستان کی مدد سے جنداللہ کے ارکان کو گرفتار کیا گیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اِس کی فوج ایک مضبوط فوج ہے، اِس کے باجودہ وہ بہت زیادہ محتاظ ہے۔

اُن کے بقول ایران نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کیے گئے حملے میں کوئی ایرانی شہری ہلاک نہیں ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کچھ ایسے گروہ چھپے ہوئے ہیں جو پاکستان کو مطلوب ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی بھی خورشید قصوری سے اتفاق کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایران نے پاکستان، عراق اور شام پر یکے بعد دیگرے حملے کر کے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے شکایات رہی ہیں، لیکن نوبت کبھی یہاں تک نہیں پہنچی تھی۔

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایران سے یہ شکایت رہی ہے کہ اس کی حدود میں پاکستان کو مطلوب بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے رہنما چھپے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ایران کو یہ شکوہ ہے کہ 'جیش العدل' نے پاکستانی بلوچستان میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔

'دونوں ملکوں کے تعلقات کافی عرصے سے پیچیدہ تھے'

جامعہ پنجاب میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد سمجھتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کافی عرصے سے پیچیدہ تھے۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب پاکستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، پاکستان دُشمن عناصر ان واقعات کو اپنے مفادات کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار اور پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ ایران نے جو کچھ کیا پاکستان نے اس کا فوری اور بہترین جواب دے دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ایران کی طرف سے ایسا اقدام حیرت انگیز ہے کیوں کہ ماضی میں یہ دونوں ممالک مل کر سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی کرتے رہے ہیں۔

اُن کے بقول ایران کو اگر کچھ تحفظات تھے تو سفارت کاروں کے علاوہ ملٹری فورمز سمیت رابطے کے کئی ذریعے موجود تھے لیکن ایسے میں پاکستان کی حدود میں حملے کرنا افسوس ناک ہے۔

جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایران کے لیے مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں کہ وہ پاکستان کا محاذ بھی کھول لے۔

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں کبھی بھی ایسے واقعات نہیں ہوئے۔ دونوں ملکوں کی ثقافت، تہذیب اور تمدن بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔

اُن کے بقول عوامی سطح پر دونوں طرف گہرے تعلقات ہیں۔ اِس کے علاوہ دونوں اطراف کے شاعر ایک دوسرے ملک کی زبان میں شاعری بھی کرتے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ تھا یہی وجہ ہے ایک برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان نے بہت محتاظ رویہ اختیار کیا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول ایران کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور پاسدارانِ انقلاب اپنی عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ہر جگہ جا کر کارروائی کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی اضلاع گوادر، کیچ، تربت، پنجگور، چاغی اور واشک ہیں جو ایرانی اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہیں۔

کیا کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے؟

تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کی رائے میں یہ صورتِ حال پر منحصر ہے کہ دونوں ممالک آگے کیا کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے پہل کے بعد پاکستان نے سفارتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جواب دیا جس پر ایران نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ بلکہ ایران نے کہا کہ اُس نے اپنے دفاع میں یہ کارروائی کی ہے جس کے بعد پاکستان نے ایک محدود فوجی کارروائی کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اس سلسلے میں کیا کرے گا کیوں کہ گیند اب تہران کے کورٹ میں ہے۔

سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول ایران میں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز ہیں جن میں ایک ایران کی حکومت ہے جب کہ دوسری جانب مذہبی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے سربراہ آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔ اُن کے بقول ایران کے پاسدارنِ انقلاب کی بھی اپنی طاقت ہے۔

اُن کے بقول ایران اس صورتِ حال میں مزید سفارتی تنہائی کا شکار ہو جائے گا، کیوں کہ اسرائیل، حماس تنازع میں فلسطینیوں کا ساتھ دینے پر ایران کو ہمدردی ملی تھی جو مسلمان ممالک میں حملوں کے بعد اب ختم ہو جائے گی۔

'بات چیت کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے'

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد کہتی ہیں ان حالات میں پاکستان کو ایران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ورنہ دونوں ملکوں کی مخالف قوتیں اس صورتِ حال کو ان کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔

تجزیہ کار محمد علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے بعد پاکستان اور ایران کے دوست ممالک کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے۔

اُن کے بقول "میرا اندازہ ہے کہ کوئی بھی ملک جو اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات کرے گا تو پاکستان کی طرف سے مثبت جواب دیا جائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ ایران بھی اس وقت کشیدگی میں یقینی طور پر کمی چاہتا ہو گا کیوں کہ ایرانی اقدام کے بعد پاکستان کی طرف سے سخت جواب دیا ہے۔ لہذٰا جو ممالک ثالثی کی پیش کش کریں گے انہیں مثبت جواب ملے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG