سپریم کورٹ کا فیصلہ؛ حکومت کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن التوا کیس میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے منگل کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے وہیں حکومت نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔

قانونی اور سیاسی حلقوں میں اب یہ بحث جاری ہے کہ حکومت کے پاس اب کیا آپشنز بچے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس 30 روز کے اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق ہے لیکن یہی تین رُکنی بینچ حکومت کی اپیل کی سماعت کرے گا۔ لہذٰا ریلیف ملنے کے امکانات کم ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے ازخود نوٹس کے اختیار محدود کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا رکھی ہے اور یہ بل دستخطوں کے لیے صدر مملکت کے پاس موجود ہے۔

SEE ALSO: سپریم کورٹ کا پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14مئی کو کرانے کا حکم

جسٹس (ر) عباد الرحمٰن کہتے ہیں کہ اگر صدرِ مملکت اس بل پر دستخط کر دیتے ہیں تو یہ قانون بن جائے گا اور پھر حکومت ازخود نوٹس کے تحت سنائے گئے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔

اُن کے بقول اس صورت میں سپریم کورٹ کا پانچ رُکنی بینچ کیس سنے گا جس میں الیکشن کیس میں فیصلہ سنانے والے تین جج شامل نہیں ہوں گے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے حال ہی میں 'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل' منظور کیا تھا جس میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات محدود کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

یہ بل منظوری کے لیے صدرِ مملکت کے پاس موجود ہے جن کے دستخطوں کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

'اب کوئی اور ادارہ الیکشن کے انعقاد میں تاخیر نہیں کر سکتا'

سینئر قانون دان اور اس کیس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ عدالت نے خود ہی اعلان کر دیا ہے کہ 14 مئی کو الیکشن ہونا ہے، لہذٰا اب کوئی ادارہ تاخیر نہیں کر سکتا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے گفتگو کرتے ہوئے علی ظفر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پابند کر دیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو وسائل فراہم کریں۔

سینئر قانون دان شاہ خاور ایڈووکیٹ کہتے ہیں سپریم کورٹ نے الیکشن کی تاریخ کے علاوہ شیڈول کا اعلان بھی خود کر دیا ہے جو کہ متنازع بات ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ الیکشن کے دن اور شیڈول کا اعلان نہیں کر سکتی کیوں کہ آرٹیکل 175/2 میں واضح ہے کہ عدالتیں وہ اختیار استعمال نہیں کر سکتیں جو آئین میں درج نہیں ہے۔

شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کرے گی کیوں کہ حکومت پہلے ہی اس کا عندیہ چکی تھی۔

اُن کے بقول اس صورتِ حال میں ملک میں آئینی اور سیاسی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔

سینئر قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اب زیادہ آپشنز نہیں ہیں کیوں کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے لیے ہے کہ وہ 90 روز میں انتخابات کرائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں حکومت سے الیکشن کمیشن کو وسائل فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اُن کے بقول اگر حکومت 10 اپریل تک فنڈز فراہم نہیں کرے گی تو پھر توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ فیصلہ اچھا لگے یا نہ لگے، اس پر حکومت کو عمل تو کرنا ہی گا۔

SEE ALSO: رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس،اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت

جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا ایک ہے راستہ ہے اور وہ ایمرجنسی کا نفاذ۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کے لیے بھی ٹھوس وجوہات کا ہونا ضروری ہے کہ ملک کو جنگ کو سامنا تو نہیں یا ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے۔

منگل کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی کہا تھا کہ آئین میں ایمرجنسی لگانے کا آرٹیکل موجود ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا تو پھر اس آپشن پر غور ہو سکتا ہے۔

جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آرٹیکل 220 لاگو ہو گا جو کہتا ہے کہ تمام متعلقہ ادارے الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔

جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس نظرِ ثانی اپیل دائر کرنے کے لیے 30 روز کا وقت ہے۔ لیکن اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں رکے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کی سیاسی صورتِ حال: عوام کیا سوچ رہے ہیں؟

اُن کا کہنا تھا کہ نظرِثانی کی اپیل دائر میں بینچ بھی یہی ہو گا اور فریقین کے وکلا بھی وہی ہوں گے جنہوں نے پہلے دلائل دیے تھے۔ لہذٰا یہ امکان کم ہے کہ حکومت کو ریلیف ملے گا۔

'غیر جمہوری ادارے اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں گے'

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ غیر جمہوری ادارے اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں گے اور اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں عدالتی فیصلوں کو من و عن تسلیم نہ کرنے کی روایت موجود ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "اس فیصلے سے پاکستان تحریکِ انصاف کو بہت فائدہ پہنچا ہے اور یہ سمجھیں کہ حکومت آج زمیں بوس ہو گئی اور اس کی قانونی اور اخلاقی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی ہے۔ "

'آئین کہتا ہے کہ اسمبلی ٹوٹ جائے تو 90 روز میں الیکشن ہوں گے'

سینئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ کوئی بھی جج آئین سے باہر جا کر فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے نوید نسیم سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح ہے کہ اسمبلی ٹوٹ جائے تو 90 روز میں الیکشن ہونے ہیں۔ لہذٰا آئین سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالد رانجھا کے بقول اگر حکومت نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو توہینِ عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

'ایک طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ایک طرف عدلیہ ہے'

حامد میر کہتے ہیں کہ "ایک طرف پی ڈی ایم کی حکومت ہے جس کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے۔ دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف ہے اور اس کے ساتھ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بہت سے ججز ہیں اور پلس عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ مجھے انٹیلی جنس ایجنسیز کے اندر سے خبر ملتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے اندر تقسیم ہے۔"

حامد میر کا کہنا تھا کہ "آج جسٹس فائز عیسیٰ جنہوں نے فوج کی سیاست میں مداخلت کو رد کیا وہ ایک طرف کھڑے ہیں اور ایک طرف جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ہیں جنہوں نے فوج کی سیاست میں مداخلت کے ذمے دار پرویز مشرف کو ریلیف دیا۔اس تقسیم میں نظر یہ آ رہا ہے کہ چیف جسٹس بندیال جسٹس مظاہر نقوی کے ساتھ کھڑے ہیں۔"