یوکرین جنگ سے متعلق انتہائی خفیہ فوجی دستاویزات سامنے آنے سے متعلق خبریں کئی روز سے زیرِگردش ہیں۔ اس معاملے نے امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ اتحادیوں کو یقین دلانے اور لیکس کا جائزہ لینے میں مصروف ہے۔
متعدد سلائیڈز پر مبنی ان معلومات نے یوکرین کے فضائی دفاعی صلاحیتوں میں ممکنہ خطرات کو عام کردیا ہے جب کہ انٹیلی جنس معاملات پر اتحادیوں کے نجی جائزے بھی سامنے آگئے ہیں۔
ان لیکس کے بعد یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ لیکس امریکہ کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں اتحادیوں کے اعتماد کو ختم کردیں گی یا اس موسمِ بہار میں روس کے خلاف لڑائی کو تیز کرنے کے یوکرین کے منصوبے کو متاثر کریں گی۔
پینٹاگان کے ایک ترجمان نے پیر کو ان لیکس کو 'قومی سلامتی کے لیے 'سنگین خطرہ' قرار دیا ہے۔
یہ دستاویزات کیا ہیں۔ ان کے منظرعام پر آنے کے بارے میں کیا معلوم ہے اور اس کے کیا ممکنہ اثرات ہوسکتے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔
دستاویزات کیا ہیں؟
خفیہ دستاویزات میں، جن کی کسی امریکی حکام نےانفرادی طور پر تصدیق نہیں کی ہے، یوکرینی فوج کی پوزیشن کے نقشوں سے متعلق بریفنگ سلائیڈز سے لے کر یوکرین کے لیے عالمی حمایت کے جائزوں اور دیگر حساس موضوعات شامل ہیں۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن کن حالات میں جوہری ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں، اس کی تفصیلات بھی دستاویزات کا حصہ ہیں۔
اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں ہے کہ کتنی دستاویزات عام ہوئی ہیں۔مگر خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے تقریباً 50 دستاویزات دیکھی ہیں جب کہ کچھ اندازوں کے مطابق دستاویزات کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
SEE ALSO: لیک ہونے والی دستاویزات قومی سلامتی کے لیے 'سنگین خطرہ' ہیں: پینٹاگانیہ دستاویزات کہاں سے آئیں؟
دستاویزات کہاں سے آئیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اب تک کسی کے پاس نہیں۔ یہاں تک کہ پینٹاگان کے سربراہ کو بھی اس بارے میں معلوم نہیں۔
امریکی وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ دستاویزات ویب میں کہیں تھیں۔ یہ کہاں تھیں اور اُس وقت ان تک رسائی کسے تھی یہ معلوم نہیں۔
ان کے بقول، "ہم تحقیقات جاری رکھیں گے اور ذمہ داروں کا تعین ہونے اور لیکس کا ذریعہ معلوم ہونے تک ہر جگہ چھان بین کریں گے۔"
دستاویزات کی افشا ہونے سے متعلق ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید اس کا آغاز 'ڈسکورڈ' کے پلیٹ فارم سے ہوا ہے۔
ڈسکورڈ ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جو آن لائن گیمز کھیلنے والے افراد میں زیادہ مقبول ہے۔ ڈسکورڈ گروپس کے لیے وائس، ویڈیو اور ٹیکسٹ چیٹس کی اجازت دیتا ہے۔
ڈسکورڈ چیٹ کے ایک رکن کے مطابق مختلف موضوعات پر بات چیت کے لیے بنائے گئے ایک فورم میں شامل افراد یوکرین میں جنگ پر بحث کیا کرتے تھے۔
SEE ALSO: پینٹاگان لیکس: کیا اتحادیوں کے ساتھ مستقبل کے تعاون میں رکاوٹ آئے گی؟ان کے بقول ایک نامعلوم صارف نے دستاویزات شیئر کیں جس کے بارے میں صارف نے دعویٰ کیا کہ یہ 'کلاسیفائیڈ' یعنی خفیہ ہیں۔ صارف نے پہلے ان دستاویزات کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کے بعد چند ماہ قبل فولڈڈ پیپرز یعنی تہہ ہوئے کاغذات کی تصاویر اپ لوڈ کی گئیں۔
اس فورم کے رکن ہونے کے ایک دعویدار نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ ایک اور شخص نے جس کی آن لائن شناخت 'لوکا' کے نام سے ہوئی ہے، نے دستاویزات کو دوسرے ڈسکورڈ چیٹ میں شیئر کیا۔ وہاں یہ دستاویزات تب تک پھیلتی رہیں جب تک یہ میڈیا تک نہیں پہنچ گئیں۔
خفیہ لیکس کی بہت سی تفصیلات کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔ کئی اعلیٰ امریکی حکام بھی عوامی سطح پر یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ابھی جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دستاویزات میں کیا انکشاف ہوا ہے؟
لیکس میں یہ سامنے آیا ہے کہ امریکہ کتنے قریب سے یہ نگرانی کرتا ہے کہ اس کے اتحادی اور دوست کس طرح روس اور چین سے بات چیت کر رہے ہیں۔ کئی مممالک کے حکام نے لیکس ریکارڈ کو مسترد یا الزامات کی تردید کی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کو روسی اہلکاروں کے دعووں کا پتا چلا کہ وہ متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات قائم کر رہے تھے۔ یو اے ای نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں 'واضح جھوٹ' قرار دیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے پیر کو رپورٹ کیا تھا کہ مصر کے صدر نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر روس کو 40 ہزار راکٹس بھیجنے کی تیاری کریں کیوں کہ وہ یوکرین میں جنگ چھیڑ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مصر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مصر اس بحران میں عدم شمولیت اور دونوں فریقین سے مساوی فاصلہ برقرار رکھنے کا عہد کرتا ہے۔
دیگر لیکس میں ان الزامات پر تشویش ہے کہ جنوبی کوریا کے رہنما یوکرین کو توپ خانے کے گولے بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کی عدلیہ کی مجوزہ تبدیلی کی مخالفت کی تھی۔
اس کے علاوہ سالانہ 90 ارب ڈالر فنڈز سے امریکی انٹیلی جنس اداروں کے پاس الیکٹرانک مواصلات کو ٹیپ کرنے، جاسوسوں کو چلانے اور سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی کرنے کے وسیع اختیارات ہیں۔ ان اختیارات کے نتائج عوام میں کم ہی نظر آتے ہیں۔
امریکہ کا ردِعمل
پینٹاگان نے لیکس کے قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اندرونی جائزے کا آغاز کردیا ہے۔
ایک دفاعی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو ایک بیان میں بتایا کہ اس جائزے کی صدارت انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی کے ڈپٹی انڈرسیکریٹری دفاع ملنسی ڈی ہیرس کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ٹیم میں قانون سازی کے امور، عوامی امور، پالیسی، قانونی مشیر اور جوائنٹ اسٹاف کے دفاتر کے نمائندے شامل ہیں۔
ایک اور دفاعی عہدے دار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پینٹاگان نے بریفنگ تک رسائی حاصل ہونے والے افراد کی تعداد کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے ہیں۔
اس کے علاوہ محکمۂ انصاف نے بھی معاملے کی کرمینل تحقیقات کا آغاز کردیا ہے کہ کس طرح سلائیڈز کو حاصل اور لیک کیا گیا۔
امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے منگل کو ان لیکس کو 'انتہائی بدقسمتی' قرار دیا۔
رائس یونیورسٹی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وہ معاملہ ہے جسے امریکی حکومت کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ پینٹاگان اور محکمۂ انصاف نے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات شروع کردی ہیں۔
ان لیکس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟
ان لیکس کے بعد سے امریکہ کے سینئر فوجی رہنما اتحادیوں سے رابطے میں ہیں۔
امریکی وزیرِدفاع کے معاون کرس میہر کا کہنا ہے ان رابطوں میں اعلیٰ سطح کی کالز شامل ہیں جس میں اتحادیوں کو انٹیلی جنس کے تحفظ اور سیکیورٹی پارٹنرشپ کے لیے ہمارے عزم کے بارے میں یقین دلایا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی حکام کو آئندہ ہفتے جرمنی میں ہونے والے کانٹیکٹ گروپ اجلاس میں زیادہ سوالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس اجلاس میں 50 سے زیادہ ممالک کے نمائندے یوکرین کے لیے ہتھیاروں اور امدادی تعاون کو مربوط کرنے کے لیے جمع ہوں گے۔
ایک سینئر دفاعی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان لیکس سے اجلاس یا اتحادیوں کی یوکرین کے لیے فوجی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کی رضامندی پر اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے "ٹرانس اٹلانٹک سیکیورٹی انیشی ایٹو " کے ڈائریکٹر کرس اسکالوبا کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں کئی اتحادی اس بارے میں زیادہ متجسس ہوں گے کہ یہ سب کیوں ہوا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس'سے لی گئی ہیں۔