|
کراچی -- پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ نے بدھ کو ایک ہی روز میں تاریخ کی سب سے زیادہ تیزی دکھانے کے بعد جمعرات کو ایک لاکھ پوائنٹس کا سنگِ میل بھی عبور کر لیا ہے۔
حکومت اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے جب کہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تیزی سے عام آدمی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں اس غیر معمولی تیزی کی وجہ کیا ہے اور اس سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا معاشی صورتِ حال سے کیا تعلق ہے؟
تیزی کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی پانچ سالہ پروگریس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ 2020 کے اختتام پر 43 ہزار پوائنٹس پر تھی۔
سن 2021 کے اختتام پر 44 ہزار پوائنٹس 2022 کے اختتام پر اسٹاک مارکیٹ پھر سے 43 ہزار پوائنٹس کی سطح پر تھی۔ جب کہ 2023 کے اختتام پر ہنڈرڈ انڈیکس 60 ہزار کی سطح عبور کر چکا تھا۔
صرف دو سالوں کے قلیل عرصے میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ 42 ہزار پوائنٹس سے ایک لاکھ پوائنٹس تک کی سطح کو عبور کر گئی اور سرمایہ کاروں کو منافع کی شرح 150 فی صد تک ریکارڈ کی گئی۔
آئی ایم ایف پروگرام اور حکومتی خسارے میں کمی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ معاشی تجزیہ کار اور اسٹاک مارکیٹ پر نظر رکھنے والے ریسرچر سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ اس میں سب سے اہم حکومت کی بہتر معاشی پالیسیاں تھیں جس کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ کے راستے سے بچا اور حکومت کے پاس قرضے واپس کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام اور اس سے قبل اسٹینڈ بائی پروگرام میں بھی حکومت کو سخت شرائط پوری کرنی پڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس بھی حکومت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھی ان پالیسیوں میں سے اکثر کو جاری رکھا اور اس کے نتیجے میں ٹیکس کلیکشن زیادہ ہوئی جس سے کسی حد تک ہی سہی حکومتی خسارہ کم ہوا ہے۔ جب کہ آئی ایم ایف کے 38 ماہ کے پروگرام ملنے کی بدولت نئے قرضوں کا حصول ممکن ہو سکا۔
شرح سود میں کمی
سلمان نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہونے سے شرح سود میں کمی لائی گئی اور نتیجے کے طور لوگوں نے بینکوں سے پیسے نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔
اس سے قبل وہ لوگ جنہوں نے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہاں پر بھی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اشرافیہ نے پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کو ترجیح دی۔
روپے کی قدر میں استحکام
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں دو سال بڑی گراوٹ دیکھی گئی اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان چوں کہ غذائی اشیا، ایندھن، ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے لیے خام مال سمیت دیگر اشیا کی بڑی تعداد باہر سے منگواتا ہے۔ تاہم ملک کے اندر آمدنی کم ہونے کے باعث طلب کم ہوئی اور دوسری جانب حکومت کی طرف سے غیر ضروری امپورٹ پر پابندی کی وجہ سے کرنسی کی قیمت میں قدرے استحکام دیکھا گیا۔
اُن کے بقول کرنسی میں کسی حد تک استحکام آنے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار بھی اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کر رہے ہیں۔
'کمپنیوں نے مہنگائی کا بوجھ خود نہیں اٹھایا'
سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ برسوں میں شدید مہنگائی کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کمپنیوں سمیت بہت سی کمپنیوں کے منافع میں کمی نہیں دیکھی گئی کیوں کہ انہوں نے اپنا منافع کم نہیں کیا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی استحکام تو نہیں لیکن یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ فی الوقت ملک میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی نہیں آنے والی اور موجودہ سیاسی سیٹ اپ ہی اپنی مدت پوری کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
اسی وجہ سے فیوچر آؤٹ لُک یعنی مستقبل کا منظر نامہ بھی کسی حد تک بہتر ہوا ہے اور دنیا کی ایک بڑی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مستحکم سے مثبت کر دی ہے۔
معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کے خیال میں بھی آئی ایم ایف کے نئے قرضے، مالیاتی نظم و ضبط اور افراطِ زر اور شرح سود میں توقع سے زیادہ تیزی سے کمی نے مارکیٹ میں لیکویڈیٹی کو بڑھایا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے غربت کم اور ملازمتوں کے مواقع کیوں نہیں پیدا ہو رہے؟
ایک اور ریسرچر اور معاشی ماہر عبدالعظیم خان کا کہنا ہے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اسٹاک مارکیٹ نے رواں برسوں میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ لیکن اسٹاک مارکیٹ میں پاکستان کی آبادی کا ایک فی صد بھی انویسٹ نہیں کرتا۔ اس لیے یہ خوشی صرف ان چند لاکھ افراد کے لیے ہے جو وہاں سے زیادہ نفع کما رہے ہیں، لیکن اس میں بھی چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے کوئی غیر معمولی منافع نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کا کُل سرمایہ اب بھی بے حد کم ہے۔ تاہم پچھلے سالوں کے مقابلے میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے۔ جب کہ لسٹڈ کمپنیوں کی تعداد بھی کئی سال سے ساڑھے پانچ سو سے بھی کم ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں خطے کی دیگر اسٹاک مارکیٹس کے مجموعی سرمائے کا حجم ٹریلین ڈالرز میں ہے۔
سرمایہ چند بڑے سرمایہ کاروں ہی کے ہاتھوں میں محدود
عبدالعظیم خان کے بقول پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ سے کمایا گیا سرمایہ صرف چند خاندانوں اور لوگوں ہی کے پاس رہتا ہے اور وہ عام پاکستانی تک منتقل نہیں ہو پاتا کیوں کہ لوگوں میں مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے بھی ترقی اور منافع کے مواقع کافی محدود ہیں۔
'مارکیٹ میں تیزی سے سرمایہ کاروں کو مزید سرمایہ کاری کی ترغیب ملتی ہے'
سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ ملک میں نئی سرمایہ کاری آنے ہی سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جب کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے دیگر سرمایہ کاروں کو بھی رغبت ملے گی کہ وہ اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ایک لمبا عمل ہے اور اس کے لیے سیاسی و معاشی استحکام اور اس سے بڑھ کر پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے جس کے بعد ہی غربت میں کمی اور ملازمتوں میں زیادہ مواقع کی توقع کی جاسکتی ہے۔