چار سال قبل نواز شریف کن حالات میں لندن گئے تھے؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف چار سال بعد آج پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔ چار سال قبل نواز شریف علاج کی غرض سے اس وقت لندن گئے تھے، جب پاکستان میں عمران خان کی حکومت تھی اور نواز شریف کو کئی کیسز کا سامنا تھا۔

اس دور میں نواز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے دیگر کئی رہنماؤں کے خلاف مختلف کیسز زیرِ سماعت تھے۔

نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے۔

نواز شریف دسمبر 2018 سے نومبر 2019 کے دوران دل کی تکلیف کے باعث لاہور کے مختلف اسپتالوں میں بھی زیر علاج رہے۔ اس دوران ان کے وکلا کی جانب سے طبی بنیادوں پر اُن کی ضمانت پر رہائی کی بھی درخواست دائر کی گئی۔ بعد ازاں وہ نومبر میں ہی لندن روانہ ہوگئے۔

نواز شریف کی خرابیٔ صحت کا پس منظر

اکتوبر 2019 کی ایک رات جب نواز شریف چوہدری شوگر ملز کیس میں نیب کی زیرِ حراست تھے تو اچانک اُن کی بگڑتی صحت کی خبریں میڈیا میں آنا شروع ہوئیں۔

نواز شریف کو لاہور کے سروسز اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں اُن کے پارٹی رہنماؤں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس دو ہزار تک گر گئے ہیں۔ بعدازاں ڈاکٹرز کے مطابق اُن کی صحت سنبھل گئی۔

سروسز اسپتال کے ڈاکٹرز کی ٹیم نے بتایا کہ نواز شریف کو دل کا معمولی دورہ بھی پڑا تھا۔

نواز شریف کے لیے جاتی عمرا لاہور میں ایک خصوصی میڈیکل یونٹ قائم کیا گیا تھا، تاہم اُن کے معالجین کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی بائی پاس سرجری لندن میں ہوئی تھی، لہذٰا وہیں کے ڈاکٹرز ہی اُن کا علاج کر سکتے ہیں۔

ای سی ایل سے نام خارج

نواز شریف کا نام وزارتِ داخلہ کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں موجود ہونے کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے تھے۔

پاکستان کی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے نومبر 2019 میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط منظوری دی تھی جس کے تحت نواز شریف کو سات ارب روپے کا ضمانتی بانڈ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان نے یہ شرط مسترد کر دی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

سولہ نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اوراس وقت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی گئی۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے مختصر حکم جاری کیا جس میں عدالت نے نئے بیان حلفی پر نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا۔

عدالت نے سابق وزیر اعظم کے علاج کے بعد وطن واپسی سے متعلق نواز شریف کے وکلا سے بیان حلفی طلب کیا تھا جس پر شہباز شریف نے تحریری بیان حلفی عدالت میں جمع کرایا۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے بعد نواز شریف کی لندن روانگی کی تصاویر منظرِ عام پر آئیں تو اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

عمران خان نے کہا کہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نواز شریف کی صحت کے حالات بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں تھیں، لیکن جس طرح نواز شریف خود چل کر جہاز میں سوار ہوئے، اس پر اُنہیں حیرت ہے۔

نواز شریف کی لندن روانگی

لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف ملنے کے بعد نواز شریف 19 نومبر 2019 کی صبح لاہور سے ایئرایمبولینس کے ذریعے لندن کے لیے روانہ ہو گئے۔

نواز شریف کے ہمراہ اُن کے معالج ڈاکٹر عدنان بھی لندن گئے، جہاں لندن کےہارلے اسٹریٹ کلینک میں اُن کا علاج معالجہ شروع ہو گیا، لیکن نواز شریف چار ہفتے بعد وطن واپس نہ آئے جس پر عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں نے اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

نواز شریف کی وطن واپسی، کب کیا ہوا؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی ملک سے روانگی اور خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن واپسی کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ ستمبر 2007 میں بھی سابق وزیرِ اعظم سات برس بعد لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ لیکن چار گھنٹے بعد اُنہیں ایک اور طیارے سے جدہ بھیج دیا گیا تھا۔

اس دوران مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں تھیں اور کارکنوں کو اسلام آباد ایئرپورٹ جانے سے روکا گیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم آخرکار نومبر 2007 میں پاکستان واپس آئے تھے اور 2008 کے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔

نواز شریف 13 جولائی 2018 کو اس وقت لاہور ایئرپورٹ پہنچے تھے جب چھ جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سابق وزیرِ اعظم کو 10 برس جب کہ اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔

نواز شریف کے استقبال کے لیے مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کی قیادت میں ریلی نکالی تھی، لیکن اس دوران مسلم لیگ (ن) اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے باعث ریلی ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکی تھی۔

اس دوران سیکیورٹی اداروں نے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے نواز شریف اور مریم نواز کو ایئرپورٹ سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا تھا۔