پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف متحدہ اپوزیشن 23 اکتوبر 1989 کو عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا چکی تھی جس پر یکم نومبر کو رائے شماری ہونا تھی۔ہر طرف افواہوں، دھمکیوں اور تند و تیز بیانات کا بازار گرم تھا۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کرایک اتحادی حکومت بنائی تھی لیکن اتحادی اپنی راہیں جدا کرچکے تھے۔ دوسری جانب اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ وہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری کرچکی ہے۔
اس کے باوجود قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی شروع ہونے سے محض تین روز قبل بے نظیر جب ترکی کے سفارت خانے کے استقبالیے میں شریک ہوئیں تو ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔
اس تقریب میں وزیرِ اعظم کے ساتھ صدر غلام اسحاق خان بھی شریک تھے جو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے مرکزی کرداروں میں شامل تھے لیکن وہ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور وزیر اعظم بے نظیر کے مشیر برائے قومی سلامتی رہنے والے سینئر سفارت کار اقبال اخوند اپنی کتاب 'ٹرائل اینڈ ایرر' میں لکھتے ہیں بے نظیر نے اس سیاسی گرما گرمی میں گھبراہٹ کا اظہار کرنے کے بجائے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ بالآخر بہت عرصے سے ہم جس (عدم اعتماد کی تحریک) کا چرچا سن رہے تھے وہ کامیاب ہونے جارہا ہے۔ میں اپنے پارٹی کے ارکان کو سلام پیش کرتی ہوں جو باوقار لوگ ہیں اور بکاؤ نہیں ہیں۔
لیکن صورتِ حال اتنی سادہ نہیں تھی جتنی نظر آرہی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف پیش ہونے والی پہلی تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی سیاسی جوڑ توڑ کا ایک اعصاب شکن کھیل شروع ہوچکا تھا۔
تحریک سے پہلے عدم اعتماد
حکومت ہٹانے کے لیے پیش ہونے والی اپوزیشن کی تحریک سے قبل مقتدر حلقوں اور وزیر اعظم کے درمیان حائل خلیج پھیلتی جارہی تھی۔ لیکن اعتماد کا یہ فقدان کسی تصادم یا اختلاف کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس دو طرفہ بے اعتمادی کا آغاز انتخابات سے بھی پہلے ہو گیا تھا۔
اگست 1988 میں ضیا الحق کی طیارے کے حادثے میں موت نے پاکستان میں سیاست کا نقشہ اچانک پلٹ دیا تھا۔ وہ پاکستان کے صدر بھی تھے اور آرمی چیف بھی۔ انہوں ںے اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں ملک کے سیاسی اقتدار اور عسکری اختیار کو اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔
اس اچانک حادثے کے بعد آرمی چیف اور صدارت دو الگ الگ اشخاص کے پاس چلے گئے۔ جنرل اسلم بیگ نئے آرمی چیف بنے اور اس وقت سینیٹ کے چیئرمین، سابق بیوروکریٹ اور ضیا الحق کے معتمدغلام اسحاق خان عبوری صدر بن گئے۔
SEE ALSO: تحریک عدم اعتماد کے آئینی تقاضے کیا ہیں؟پاکستان کے سابق سفارت کار اور مصنف حسین حقانی اپنی کتاب ’پاکستان: بٹوین موسک اینڈ ملٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان ضیا دور میں اختیار کی گئی افغان پالیسی کا تسلسل چاہتے تھے۔ جب کہ سوویت یونین کے انخلا کی تیاریوں کے ساتھ خطے کے حالات تبدیل ہورہے تھے۔ سوویت انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت کی تشکیل پر بھی امریکہ اور پاکستان میں اختلافِ رائے پایا جاتا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ سوویت انخلا کے بعد پاکستان کو امریکی امداد جاری رہنے کی کوئی یقین دہانی بھی نہیں کرائی جاسکتی تھی۔ اس مد میں پاکستان کو آخری بار 1986 میں چار ارب ڈالر سے زائد کا امدادی پیکج ملا تھا۔
حسین حقانی کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی کم ہوتی دل چسپی کے باعث یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ وہ پاکستان پر جمہوریت کی بحالی اور جوہری عدم پھیلاؤ جیسے مطالبات پر زور دینا شروع کردے گا جسے وہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے نظر انداز کرتا آرہا تھا۔
ان کے مطابق جنرل اسلم بیگ صدر ضیا الحق کے دور میں بھی اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ پاکستان کو امریکہ کے سامنے دو ٹوک مؤقف رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو ملک کا سب سے بڑا اسٹرٹیجک اثاثہ تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ خارجہ پالیسی سے متعلق امور کسی سویلین منتخب لیڈر کو سپرد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اپریل 1986 میں بے نظیر کی وطن واپسی اور ملک گیر عوامی رابطوں کے بعد ان کی عوامی مقبولیت سامنے آچکی تھی۔
صدر ضیا الحق نے جو غیر جماعتی انتخابات کرائے تھے اس میں منتخب ہونے والی محمد خان جونیجو کی حکومت کو مبینہ طور پر خارجہ امور سے متعلق اختلافات کی وجہ خود ہی چلتا کیا تھا۔ جس کے بعد 1988 میں انتخابات طے ہوچکے تھے۔
اقبال اخوند کے مطابق جنرل اسلم بیگ کو یہ خدشہ تھا کہ طویل دور اقتدار کے بعد فوج کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ بے نظیر پاکستان واپسی کے بعد ملک کے اندر اور باہر اپنے سیاسی مستقبل کو یقینی بنانےکے لیے پوری طرح متحرک ہوچکی تھیں۔
سینئر صحافی قیوم نظامی نے اپنی کتاب 'جرنیل اور سیاست دان تاریخ کی عدالت میں' لکھا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی )کے سربراہ جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی اطلاعات کے مطابق بے نظیر بھٹو نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کردیں گی اور افغانستان اور کشمیر میں جاری جہادی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کردیں گی۔
SEE ALSO: پاکستان میں پہلا مارشل لا: 'عجلت میں کیا گیا اسکندر مرزا کا وہ فیصلہ جس نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا'وہ لکھتے ہیں کہ ان خدشات کو بنیاد بنا کر انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ جنرل حمید گل نے بعد ازاں یہ اتحاد بنوانے کا اعتراف بھی کیا۔
درست اور غلط اندازے
قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بالترتیب 16 اور 19 نومبر 1988 کو منعقد ہوئے۔ اس وقت پاکستان میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کچھ روز کے وقفے سے ہوتے تھے۔
معروف قانون داں حامد خان 'کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آرہی تھی مرکز میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔
یہ اندازے درست ثابت ہوئے۔قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی 207 عام نشستوں میں سے 93 پر کامیاب ہوئی جب کہ اس کے مدمقابل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی)نے 55 عام نشستیں حاصل کیں۔ دیگر جماعتوں کی نشستوں کے علاوہ اس انتخاب میں 27 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت تھی لیکن اسے حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی۔
مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) 1988 میں کراچی اور حیدرآباد سے 13 قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ مرکز میں جاری نمبر گیم کی وجہ سے اس کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔
حامد خان لکھتے ہیں کہ اس دور میں صدر کو یہ آئینی اختیار حاصل تھا کہ اگر کوئی جماعت ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے تو وہ کسی بھی رکن کو وزیر اعظم نامزد کرسکتے تھے۔ نامزد وزیرِ اعظم کے لیے ایوان سے 60 روز کے اندر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا لازمی تھا۔ اس لیے انتخابی نتائج آنے کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں جوڑ توڑ کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
صدر اسحاق خان ملک کے عبوری صدر تھے اور 1990 میں ان کی مدت ختم ہونے والی تھی۔ وہ بے نظیر کو حکومت بنانے کی دعوت دینے سے قبل مستقل صدرات کے لیے یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
برطانوی صحافی اوون بینٹ جونز اپنی کتاب 'بھٹو ڈائنیسٹی: دی پاور اسٹرگل ان پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ بے نظیر کے سامنے اس وقت دو راستے تھے۔ غلام اسحاق خان چاہتے تھے آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی مل کر مرکز میں حکومت بنا لیں لیکن بے نظیر نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ لیکن بعد میں جب صدارتی انتخاب کا مرحلہ آیا تو غلام اسحاق خان پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کے متفقہ امیدوار تھے اور ان دونوں سیاسی حریفوں نے انہیں منتخب بھی کرایا۔
پیپلز پارٹی کے اندر ہی ایک خیال یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی صورت میں پی پی پی کو اپوزیشن میں بیٹھ جانا چاہیے اور سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ بے نظیر اس مؤقف کی بھی مخالفت کرتی تھیں۔
ان کا خیال تھا کہ 11 سال ان کی جماعت اقتدار سے باہر رہی تھی اور ضیا دور میں اسے دشواریوں کا سامنا رہا تھا۔ اس لیے جب موقع مل رہا ہے تو پارٹی اور اس کے حامیوں کو ریلیف لینا چاہیے۔
SEE ALSO: سعودی عرب: جب شاہ سعود اپنی ہی سازش کا شکار ہو کر اقتدار سے محروم ہوئےاسی لیے بے نظیر نے مہاجر قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور 13 ارکان کی حمایت حاصل کرلی۔ اس کے بعد چند آزاد امیدواروں کو بھی ساتھ ملایا اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔
اوون بینیٹ جونز لکھتے ہیں کہ اس سے قبل بے نظیر آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو ایک ملاقات میں یقین دہانی کرا چکی تھیں کہ وہ غلام اسحاق کو صدر منتخب کرائیں گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک کے خارجہ امور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیے اور ریٹائرڈ جنرل صاحبزادہ یعقوب کو وزیرِ خارجہ بنایا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ فوج کے دفاعی بجٹ میں کٹوتی نہیں کریں گی۔
پہلا وار
پیپلز پارٹی سندھ میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ سرحد(خیبر پختونخوا) میں اس نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنائی تھی اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی دونوں ہی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔
بلوچستان میں جمیعت علمائے اسلام( ف) کو 10 اور بلوچستان نیشنل الائنس (بی این اے) کو 11 نشستیں ملی تھیں۔وہاں پہلے ظفر اللہ جمالی چند ماہ کے لیے وزیر اعلی بنے اور بعدازاں بی این اے ، آئی جے آئی اور جے یو آئی کے معاہدے سے حکومت قائم ہوئی اور نواب اکبر بگٹی وزیر اعلیٰ بنے۔
پنجاب میں اگرچہ پیپلز پارٹی نے آئی جے آئی کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں لیکن صوبائی اسمبلی میں آئی جے آئی 108 عام نشستیں لے کر اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی کی 94 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن آئی جے آئی کے سربراہ نواز شریف پنجاب میں منتخب ہونے والے 32 آزاد امیدواروں میں سے اکثر کو اپنے ساتھ ملا کروزیرِ اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
یہ پہلا موقع تھا جب وفاق اور پنجاب میں دو الگ الگ جماعتوں کو اقتدار ملا تھا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وزیر اعظم کے سیاسی حریف نوازشریف کی حکومت بننے کی وجہ سے وفاقی و صوبائی حکومتوں میں ابتدا سے ہی چپقلش رہی۔
روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں سینئر صحافی شیخ عزیز کے ایک مضمون کے مطابق نواز شریف وفاق میں حکومت بنانے کے خواہش مند تھے۔ اس لیے جب وفاق میں بے نظیر کی حکومت بن گئی تو نواز شریف نے انہیں ٹف ٹائم دیا۔ وہ صوبے میں وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر ان کے استقبال تک کے روادار نہیں تھے۔
بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ نواز شریف موقع ملتے ہی وفاق میں تبدیلی کے لیے کوئی کوشش کریں گے کیوں کہ انتخابی نتائج آںے کے بعد وہ مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے باجود حکومت بنانے کے لیے کوشاں تھے۔
اس سے پہلے کہ نواز شریف سیاسی داؤ پیچ شروع کرتے 1989 میں بے نظیر بھٹو نے پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ فیصلہ غلط اندازوں پرمبنی تھا۔ پنجاب میں پی پی کے پاس 94 ارکان تھے اور آئی جے آئی کو اپنے 102 ارکان کے ساتھ 32 آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن جب پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو نواز شریف 152 ووٹ حاصل کرکے اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔
SEE ALSO: ’صدر تارڑ نے کہا جنرل مشرف میرے ماتحت ہیں میں انہیں اپنا استعفی نہیں دوں گا ‘جوابی وار
بے نظیر کے معتمد اقبال اخوند لکھتے ہیں کہ انہوں ںے جنرل ضیا الحق کی حکومت سے فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اقتدار تو حاصل کرلیا تھا لیکن یہ ان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنا۔ اس وقت کے 'اہلِ اقتدار' کے لیے بے نظیر ناقابلِ قبول تھیں اس لیے پہلا موقع ملتے ہی انہوں نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔
پنجاب میں ناکام عدم اعتماد کے بعد غلام اسحاق خان کا جواب تیار تھا۔ کیوں کہ وہ پہلے ہی بے نظیر سے خائف بھی تھے اور خفا بھی۔
مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم ہونے کی وجہ سے بے نظیر کو پوری دنیا میں بہت پذیرائی مل رہی تھی۔ یہ بات غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کے لیے تشویش کا باعث بن رہی تھی کیوں کہ وہ خارجہ امور سے دور رہنے کی یقین دہانی کرا کر اقتدار میں آئی تھیں لیکن وہ سب سے زیادہ اسی شعبے میں فعال نظر آرہی تھیں۔
بے نظیر کی حکومت کے قیام کے چند ہفتوں بعد ہی اسلام آباد میں جنوبی ایشیا تعاون تنظیم (سارک) کا اجلاس ہوا جس میں بھارت کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی شریک ہوئے۔ اس موقع پردونوں وزرائے اعظم کی ملاقات بھی ہوئی۔
اوون بینیٹ جونز لکھتے ہیں کہ دونوں جوان قائدین کے بارے میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ مستقبل میں بہتر تعلقات کے لیے نیا آغاز کرسکتے ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم نے آئندہ بھی ملاقاتیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد جولائی 1989 میں راجیو گاندھی نے دوسری بار پاکستان کا دورہ بھی کیا لیکن بے نظیر نے صدر اسحاق خان کو ان رابطوں سے دور رکھا۔
سارک اجلاس میں اپنے کلیدی خطاب میں بے نظیر نے کہا کہ دفاعی بجٹ بے قابو ہورہا ہے اور اسے غربت سے مقابلے پر خرچ ہونا چاہیے۔
اوون بینیٹ جونز کے مطابق اگرچہ یہ بات ڈھکے چھپے انداز میں کہی گئی تھی لیکن اس نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو خفا کردیا تھا۔ وہ پہلی دراڑ پڑ چکی تھی جو بعد میں خلیج بننے والی تھی۔
بے نظیر پر عدم اعتماد سے پہلے
ایوانِ صدر میں بے نظیر بھٹو سے متعلق ناپسندیدگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے آنے والی فائلوں پر کئی کئی روز تک کوئی جواب نہیں دیا جاتا تھا۔
برطانوی صحافی اوون بینیٹ جونز اس وقت وزیر اعظم آفس سے منسلک سرکاری افسر اور موجودہ وزیرِ تعلیم شفقت محمود کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بے نظیر کے گرد محاصرے جیسا ماحول تھا جس میں وہ کام کررہی تھیں۔ جرمنی اور ترکی جیسے ممالک سے آنے والے دعوت نامے اور پیغامات بھی ان تک پہنچنے نہیں دیے جاتے تھے۔
اس کشیدہ ماحول میں وزیرِ اعظم ایک اور اہم قدم اٹھانے جارہی تھیں۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتی تھیں اور آئی جے آئی کے قیام میں ان کے کردار سے بھی آگاہ تھیں۔
بے نظیر نے پیپلز پارٹی کے ہم درد تصور ہونے والے ریٹائر ایئر مارشل ذوالفقار علی خان کی سربراہی میں حکومت اور خفیہ اداروں کے درمیان تعلق کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ نشان دہی کی کہ اپنی دیگر مہارتوں کے علاوہ آئی ایس آئی ملک کی داخلی سیاست میں ملوث ہونے کا میلان رکھتی ہے۔ کمیشن نے آئی ایس آئی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی سفارشات بھی کیں۔
کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد بے نظیر موقع کے انتظار میں تھیں۔ افغانستان میں آئی ایس آئی کی حمایت سے افغان مجاہدین کو جلال آباد پر قبضے کی کوشش میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر بے نظیر نے جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹا کر ملتان کا کور کمانڈر بنا دیا۔ ان کی جگہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل شمس الدین کلو کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کردیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے آئی ایس آئی کو سیاسی سرگرمیوں اور سیاست دانوں کی نگرانی سے دور رہنے کے احکامات بھی جاری کیے۔ اوون بینیٹ جونز کے مطابق ان اقدامات سے فوج اور بے نظیر کے درمیان بے اعتمادی کی فضا میں مزید اضافہ ہوا۔
حامد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اسی دور میں بے نظیر کی حکومت پر مالی بدعنوانی اور من پسند افراد کو نوازنے کے الزامات گردش کرنے لگے جس کے بعد ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔
آپریشن مڈنائٹ جیکال
ایئر مارشل ذوالفقار کے کمیشن کی سفارشات کے بعد بے نظیر نے سویلین انٹیلی جنس ادارے ’انٹیلی جنس بیورو‘ (آئی بی) کو مضبوط کیا اور اس کے فنڈ میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا۔جب بے نظیر کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی خبریں گردش میں تھیں تو اسی دور میں آئی بی نے ایک سازش کا انکشاف کیا کہ آئی ایس آئی کے دو افسران بریگیڈیئر امتیاز عرف بلا اور میجر عامر بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین کی وفا داریاں تبدیل کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔
آئی بی کی اس کارروائی کو' آپریشن مڈ نائٹ جیکال' کا نام دیا گیا تھا۔
اس دور میں آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل رہنے والے مسعود شریف خٹک نے فروری 2013 میں اپنے ایک عدالتی بیان میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بے نظیر کی حکومت ختم کرنا چاہتے تھے۔
آئی بی نے ان افسران کے ارکان اسمبلی سے ہونے والے رابطوں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز بھی حاصل کرلی تھیں۔ بے نظیرنے یہ مواد جنرل اسلم بیگ کو دے دیا جنھوں ںے ان افسران کو برطرف کردیا۔ اس معاملے پرآج تک کئی بیانات و الزامات تو سامنے آچکے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ان دونوں افسران کو سیاسی رابطوں کے براہ راست احکامات کس نے جاری کیے تھے۔
آم کی پیٹیاں اور اسامہ بن لادن
بے نظیر بھٹو اپنی کتاب ’ڈاٹر آف ڈیسٹنی‘ میں الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے اسامہ بن لادن نے مالی معاونت فراہم کی تھی۔ اسامہ بن لادن اس وقت افغان جہاد میں مالی معاونت فراہم کرنے کی وجہ سے ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے آرہے تھے۔
وہ لکھتی ہیں کہ انہیں ایک رپورٹ موصول ہوئی کہ سعودی طیارہ آم کی پیٹیاں لے کر پاکستان پہنچا ہے۔
اس پر وزیرِ اعظم کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ سعودی عرب میں کھجور کی پیدوار تو ہوتی ہے لیکن وہاں سے آموں کی پیٹیاں آنے کی اطلاع پر انہیں کچھ شبہ ہوا۔ سویلین انٹیلی جنس نے کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جنہیں آم کی پیٹیاں بتایا گیا تھا اس میں تو بھاری رقم تھی۔
بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں:’’ اس وقت تک میرا خیال تھا کہ مجھے سعودی فرماں روا شاہ فہد کی حمایت حاصل ہے۔ میں جب ان سے ملی تو انہوں نے میرے والد کی تعریف کی تھی اور بتایا تھا کہ انہوں نے کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی کوشش کی۔"
وہ لکھتی ہیں کہ "سعودی فرماں روا نے میرے والد کو اپنا بھائی اور مجھے اپنی بیٹی قرار دیا تھا۔ اس لیے جب طیارے میں یہ رقم آنے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے وزیرِ قانون کو یہ پیغام بھیج کر سعودی عرب روانہ کیا کہ کیا وہ اپنی بیٹی سے ناراض ہوگئے ہیں اور اس لیے میرے مخالفین کو حکومت کرنے میں مدد کرنے کے لیے پیسے بھجوا رہے ہیں۔"
سعودی بادشاہ نے بے نظیر کے پیغام رساں کو جواب دیا کہ اس رقم کا سعودی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ’افغان جہاد سے متاثر‘ چند افراد اپنا ذاتی سرمایہ بھجوا رہے ہیں۔ بے نظیر لکھتی ہیں کہ انہیں سعودی بادشاہ کے ایک مشیر نے بتایا کہ اس رقم کا تعلق اسامہ بن لادن سے ہے۔
اس خبر کی تصدیق ہوتے ہی بے نظیر بھٹو امریکہ کے سفارت خانے پہنچ گئیں اور انہوں نے براہِ راست صدر بش سینئر سے رابطہ کیا۔
بے نظیر نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر کو بتایا کہ فوج میں افغان مجاہدین کے حامی سخت گیر عناصر ان کی حکومت کو گرانے کے لیے شدت پسندوں کی مدد لے رہے ہیں۔ انہوں ںے امریکہ کے صدر کو سعودی مشیر کی فراہم کردہ معلومات سے بھی آگاہ کیا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش میں اسامہ بن لادن بھی شریک ہیں۔
بے نظیر اپنی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ 1989 تک افغانستان میں سوویت یونین کی پسپائی سے پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں میں یہ اعتماد پیدا ہوگیا تھا کہ وہ اب مغرب کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ان حالات میں وہ اور ان کی اعتدال پسند جماعت اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ لیکن مغربی انٹیلی جنس ادارے ان سے زیادہ فوج کے جرنیلوں کے ساتھ کام کرنے میں سہولت محسوس کرتے تھے۔
برطانوی صحافی اوون بینٹ جونز کے مطابق نوازشریف ہمیشہ ایسی کسی کوشش میں ملوث ہونے سے انکار کرتے آئے ہیں البتہ 2006 میں جماعتِ اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اسامہ بن لادن بے نظیر کی جگہ نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنانا چاہتے تھے۔
سیاسی مؤرخین کے مطابق آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے بعد وفاداریاں تبدیل کرنے والے رہنما بھی ہوشیار ہوچکے تھے اور دونوں طرف سے ہارس ٹریڈنگ کے لیے بے پناہ سرمائے کا استعمال کیا جارہا تھا۔
نمبر گیم کیا تھا؟
اس وقت قومی اسمبلی کے ایوان میں عام اور مخصوص نشستوں سمیت اراکین کی کل تعداد 237 تھی جس میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کےلیے 119 ووٹ درکار تھے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 92 تھی اور وزیر اعظم پر اعتماد کے لیے اسے مزید 27 ووٹ چاہیے تھے۔
SEE ALSO: فوجی حکمرانوں کے خلاف مقدمات کب ہوئے، کیا فیصلے ہوئے؟اسی طرح اسلامی جمہوری اتحاد کے ارکان کی تعداد 54 تھی اور تحریک کی کامیابی کے لیے اسے 65 مزید ووٹ درکار تھے۔لیکن آئی جے آئی نے عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کرانے کے روز ہی یہ دعویٰ کردیا تھا کہ اسے 129 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اپنے 14 ارکان کے ساتھ پہلے ہی راہیں جدا کرچکی تھی اور آئی جے آئی کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد متحدہ اپوزیشن کا حصہ بن چکی تھی۔
اس وقت آئین میں تحریک عدم اعتماد میں پارٹی کی ہدایات کےبرخلاف ووٹ دینے کی صورت میں نشست سے برطرفی کی شق شامل نہیں تھی اور نہ ہی آزاد امیدواروں کو پارٹی سے وابستگی کا پابند کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جوڑ توڑ کے لیے میدان کھلا تھا۔
برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب اپنی کتاب ’ویٹنگ فور اللہ‘ میں لکھتی ہیں کہ دونوں جانب سے وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے لیکن اس پوری مشق سے جمہوریت کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا تھا۔وہ لکھتی ہیں کہ بے نظیر نے سیاسی جوڑ توڑ میں وزارتوں کی پیش کش کی۔ انہوں ںے اس ممکنہ ضرورت کے پیشِ نظر اپنی پوری کابینہ کے استعفی لے کر اپنے پاس رکھ لیے تھے۔
سینئر صحافی شیخ عزیز کے مطابق ایم کیو ایم کے 14 ووٹوں کے بعد تعداد پوری کرنے کے لیے آئی جے آئی نے اپنی توجہ 37 آزاد امیدواروں پر مرکوز کردی تھی۔
اپوزیشن کی جانب سے 24 اکتوبر 1989 کو عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ حامد خان کے مطابق آئی جے آئی کے مرکزی رہنما نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے پنجاب حکومت کے وسائل کو بروئے کار لارہے تھے۔ بلوچستان سے نواب اکبر بگٹی بھی ان کی حمایت کا اعلان کرچکے تھے۔
آپریشن مڈ نائٹ جیکال کی وجہ سےپیپلز پارٹی نے عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے ہی قومی اسمبلی کے ارکان اور ممکنہ طور پر وفاداری بدلنے والے اپنے ارکان سے رابطے بڑھا دیے تھے۔
حکومت اور آئی جے آئی نے اپنے اپنے حامیوں کو ترغیبات اور دباؤ سے بچانے کے لیے تحریک پیش ہونے سے قبل اپنی نگرانی میں 'محفوظ مقام' پر پہنچا دیا تھا۔
صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس نے اپنے 100 حامی ارکانِ قومی اسمبلی کو منگورہ میں رکھا ہوا تھا۔ بے نظیر نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کے حامیوں کو نواز شریف نے مری کے گیسٹ ہاؤس میں محصور کیے رکھا اور دباؤ اور لالچ سے ان کی وفا داریاں تبدیل کرانے کی کوشش کی۔
دوسری جانب اپوزیشن نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ حکومت اس کے ارکان کو اجلاس میں شریک ہونے سے روک رہی ہے۔ آئی جے آئی نے صدر اور فوج سے ان ارکانِ اسمبلی کا تحفظ یقینی بنانے کی درخواست بھی کی تھی۔
بالآخر یکم نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی گئی۔ تحریک پر بحث کا آغاز قائد حزب اختلاف غلام مصطفی جتوئی نے کیا اور معاشی بد انتظامی، بد امنی، نا اہلی اور کرپشن کو حکومت پر عدم اعتماد کی بنیاد قرار دیا۔
اپنی کتاب ’کونسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں حامد خان نے لکھا ہے چند دیگر تقاریر کے بعد بے نظیر نے اس موقع پر باوقار انداز میں اپنی حکومت کا دفاع کی۔ اس کے بعد تحریک پر رائے شماری ہوئی تو 107 ارکان نے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 124 ارکان نے اس کی مخالفت کی اور یوں بے نظیر کی حکومت بچ گئی۔ البتہ کم و بیش گیارہ ماہ قبل جب وزیر اعظم نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت انہیں 148 اراکین کا اعتماد حاصل تھا۔
عدم اعتماد پر رائے شماری میں اپوزیشن کے سات اور حکومت کے تین ارکان نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں جب کہ اے این پی کے ولی خان سمیت پانچ ارکانِ اسمبلی غیر حاضر رہے۔
حامد خان کے مطابق حکومت کا ساتھ دینے والے ارکان اسمبلی میں سے بعض کو کابینہ میں شامل کیا گیا اور کچھ کو آسان اقساط پر بینکوں سے قرضے دیے گئے۔
برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب کے مطابق اس پوری مشق میں دونوں فریقوں نے کروڑوں روپے صرف کیے لیکن اس سے پاکستان میں جمہوریت کی قدر و منزلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
عدم اعتماد کے بعد عدم استحکام
بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد ججوں اور فوجی افسران کی تعیناتی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ اور وزیرِ اعظم کے درمیان ٹھنی رہی۔ مئی 1990 میں حیدرآباد میں پکا قلعہ سانحہ اور بعد ازاں کراچی میں بد امنی کے واقعات ہوئے۔ حکومت پر بدعنوانی کے الزامات میں شدت آںے لگی۔
انہی حالات کو بنیاد بنا کر عدم اعتماد ناکام ہونے کے صرف آٹھ ماہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے پانچ اگست 1990 کو آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کے تحت حاصل اختیار استعمال کرتے ہوئے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کردیا۔
کرسٹینا لیمب کے مطابق آئی بی نے بے نظیر بھٹو کو ایوانِ صدر کے ارادوں سے آگاہ کردیا تھا۔ لیکن غلام اسحاق خان آخری وقت تک ایسا کوئی قدم اٹھانے سے انکاری رہے۔وہ لکھتی ہیں کہ بے نظیر ان اطلاعات کو صرف اس لیے نظر انداز کررہی تھیں کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ایوانِ صدر دو سال کے قلیل عرصے میں دو وزرائے اعظم کو برطرف کرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔
لیمب کے مطابق دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ بے نظیر اپنے ساتھ وفاداری کو ہر چیز پر ترجیح دیتی تھیں۔ اس کی وجہ سے ان کے گرد ایسے لوگ جمع ہوگئے تھے جو آخری وقت تک انہیں باور کراتے رہےے کہ وہی ملک کی واحد عوامی رہنما ہیں۔
کرسٹینا لیمب مزید لکھتی ہیں کہ ایسے لوگوں سے بچنے کے لیے بے نظیر نے کراچی میں بلند دیواروں کے حصار میں اپنا گھر بنوایا تھا۔ جہاں وہ حکومت کی برطرفی کے بعد جب پہلی مرتبہ ان سے ملنے گئیں تو بے نظیر عدالت میں کرپشن کے ایک الزام میں پیشی سے واپس آئیں تھیں اور اب ان کے چہرے پر وہ توازن اور اطمینان نظر نہیں آرہا تھا جس کے ساتھ انہوں نے آمریت کا مقابلہ شروع کیا تھا۔