رواں ماہ نو نومبر کو جب روسی حکام نے یوکرینی علاقے خیرسون سے روسی فوج کے انخلا کا اعلان کیا تو ٹیلی ویژن پر یہ اعلان کرنے والے روسی وزیرِ دفاع سرگئی شوئیگو اور دیگر اعلٰی فوجی حکام تھے۔ لیکن روسی صدر ولادیمیر پوٹن اس اہم اعلان کے موقع پر موجود نہیں تھے۔
پوٹن اس وقت ماسکو میں ایک نیورو کلینک کا دورہ کر رہے تھے، جہاں ایک ڈاکٹر دماغ کی سرجری میں مصروف تھے۔ اسی روز پوٹن نے ایک اور تقریب میں شرکت کی، لیکن خیرسون سے فوجیں واپس بلانے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
خیرسون اسٹرٹیجک لحاظ سے یوکرین کا وہ اہم علاقہ ہے جس پر روس نے رواں برس فروری میں حملے کے بعد سب سے پہلے قبضہ کیا تھا۔ لیکن رواں ماہ یہاں سے روسی افواج کے انخلا کو یوکرین جنگ میں روس کے لیے بڑا دھچکا اور ایک لحاظ سے پسپائی قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یوکرین جنگ کے دوران روسی صدر جنگ کی لمحہ بہ لمحہ صورتِ حال کا خود جائزہ لینے کے علاوہ فوجی کمانڈرز کو جنگی حکمتِ عملی بنانے کی ہدایات دیتے رہے ہیں۔ لیکن نو نومبر کو خیرسون سے روسی فوج کے انخلا کے بعد صدر پوٹن جنگ پر بات کرنے کے علاوہ دیگر معاملات توجہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کرونا وبا کے دوران بھی روسی صدر بری خبریں سنانے کی ذمے داری کسی اور کو سونپ دیتے تھے اور اب نو ماہ سے جاری یوکرین جنگ میں بھی فوجی انخلا یا فوجی آپریشن میں ناکامی کی اطلاعات عوام سے پہنچانے کی ذمے داری پوٹن نے دوسروں کے سپرد کر دی ہے۔
خیرسون بھی یوکرین کے اُن چار علاقوں میں شامل تھا جسے روسی صدر نے ستمبر کے اختتام میں روس میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈونیٹسک، لوہانسک اور زاپوریژیا کو بھی روس نے ضم کر لیا تھا۔ امریکہ سمیت عالمی برادری نے روس کے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔
SEE ALSO: روسی فوج کی ایک اور شہر سے پسپائی، یوکرین کی فورسز نے کنٹرول سنبھال لیاروسی فوج نے 11 نومبر کو خیرسون سے اپنی فوجوں کا انخلا مکمل ہونے اور دریائے ڈینیپر کے مشرقی کنارے پر آجانے کی اطلاع دی اور اس وقت کے بعد سے پوٹن نے کسی بھی عوامی تقریب میں اس پسپائی کا ذکر تک نہیں کیا۔
سیاسی تجزیہ کار ٹاٹیانا اسٹانوواوا نے ' اپنے ایک حالیہ تبصرے میں لکھا کہ پوٹن اسی اپنی پرانی منطق کی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ یہ جنگ نہیں ہے بلکہ ایک اسپیشل آپریشن یا خصوصی کارروائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بڑے فیصلے پیشہ ور لوگوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ کرتا ہے جب کہ صدر اس سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: یوکرین پر ایرانی ڈرونز سے حملے، امریکہ نے نئی پابندیاں لگا دیںتجزیہ کار دیمتری اورش کن پوٹن کی خاموشی کا سبب یہ حقیقت بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا سیاسی نظام قائم کر دیا ہے جو سابقہ سوویت یونین کے نظام سے مشابہہ ہے۔ اس میں سابق سوویت سربراہ جوزف اسٹالن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی غلطی کر ہی نہیں سکتے۔
کریملن کے حامی ایک سیاسی تجزیہ کار سرگئی مارکوو نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پوٹن کے لیے خیرسون سے پسپائی کے موقع پر آرمینیا اور سینٹرل افریقن ری پبلک کے لیڈروں کی جانب سے آنے والی ٹیلی فون کالیں خود خیرسون کے جانے سے زیادہ تکلیف دہ تھیں۔
بعض دوسروں نے اس پسپائی کو مثبت رنگ دینے کی کوشش کی اور اس میں پوٹن کو بھی شامل کیا۔ کریملن کے حامی ٹی وی ہوسٹ دیمتری کسیلیو نے اتوار کی رات اپنے نیوز شو میں کہا کہ فوجوں کے انخلا کے پیچھے یہ منطق ہے کہ لوگوں کو محفوظ بنایا جائے۔