امریکی حکومت خبردار کرچکی ہے کہ اگر معاہدے پر دستخط نہ کیے گئے تو امریکہ افغانستان میں موجود اپنے تمام ساڑھے 44 ہزار فوجی 2014ء کے اختتام تک واپس بلالے گا۔
واشنگٹن —
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اب بھی افغانستان کے ساتھ طے پانے والے مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر رواں سال کے اختتام تک دستخط کا خواہاں ہے لیکن اس میں کچھ تاخیر برداشت کی جاسکتی ہے۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے 'وہائٹ ہاؤس' کے نائب ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا کہ معاہدے پر دستخط میں چند دن کی تاخیر کوئی بڑی بات نہیں۔
تاہم ترجمان کے بقول اگر معاہدے پر دستخط کرکے اسے فوری نافذ نہ کیا گیا تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی لگ بھگ آٹھ ہزار امریکی فوجی وہاں ٹہر سکیں گےجو افغان فوج، پولیس اور فضائیہ کے ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں کو تربیت اور آپریشنل امور میں مشاورت فراہم کریں گے۔
امریکہ کا اصرار ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی مجوزہ معاہدے پر سالِ رواں کے آخر تک اس معاہدے پر دستخط کردیں تاکہ اسے 2014ء کے بعد اپنے فوجیوں کے افغانستان میں قیام سے متعلق منصوبہ بندی کے لیے مناسب وقت مل سکے۔
امریکی حکومت خبردار کرچکی ہے کہ اگر معاہدے پر دستخط نہ کیے گئے تو امریکہ افغانستان میں موجود اپنے تمام ساڑھے 44 ہزار فوجی 2014ء کے اختتام تک واپس بلالے گا۔
افغانستان کے قبائلی رہنماؤں اور پارلیمان کی جانب سے منظوری دیے جانے کے باوجود صدر کرزئی مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ معاہدے کی منظوری کا فیصلہ آئندہ سال اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے نئے صدر پر چھوڑ دیا جائے۔
امریکہ صدر کرزئی کی اس تاخیر سے خاصا نالاں ہے اور معاہدے پر دستخط کے لیے ان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے رہی ہے کہ صدر کرزئی کی جانب سے تاخیر کی صورت میں امریکہ اس معاہدے سے دستبردار بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن افغانستان و پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی جیمز ڈوبنز نے رواں ہفتے واضح کیا تھا کہ اوباما انتظامیہ فی الحال معاہدے سے دستبردار ہونے پر غور نہیں کر رہی۔
منگل کو امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے بیانِ حلفی دیتے ہوئے جیمز ڈوبنز نے کہا تھا کہ مجوزہ معاہدے میں تاخیر کے باوجود ان کی حکومت افغانستان سے امریکی افواج کامکمل انخلا سے متعلق کسی فیصلے پرفی الحال غور نہیں کر رہی۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے 'وہائٹ ہاؤس' کے نائب ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا کہ معاہدے پر دستخط میں چند دن کی تاخیر کوئی بڑی بات نہیں۔
تاہم ترجمان کے بقول اگر معاہدے پر دستخط کرکے اسے فوری نافذ نہ کیا گیا تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی لگ بھگ آٹھ ہزار امریکی فوجی وہاں ٹہر سکیں گےجو افغان فوج، پولیس اور فضائیہ کے ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں کو تربیت اور آپریشنل امور میں مشاورت فراہم کریں گے۔
امریکہ کا اصرار ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی مجوزہ معاہدے پر سالِ رواں کے آخر تک اس معاہدے پر دستخط کردیں تاکہ اسے 2014ء کے بعد اپنے فوجیوں کے افغانستان میں قیام سے متعلق منصوبہ بندی کے لیے مناسب وقت مل سکے۔
امریکی حکومت خبردار کرچکی ہے کہ اگر معاہدے پر دستخط نہ کیے گئے تو امریکہ افغانستان میں موجود اپنے تمام ساڑھے 44 ہزار فوجی 2014ء کے اختتام تک واپس بلالے گا۔
افغانستان کے قبائلی رہنماؤں اور پارلیمان کی جانب سے منظوری دیے جانے کے باوجود صدر کرزئی مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ معاہدے کی منظوری کا فیصلہ آئندہ سال اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے نئے صدر پر چھوڑ دیا جائے۔
امریکہ صدر کرزئی کی اس تاخیر سے خاصا نالاں ہے اور معاہدے پر دستخط کے لیے ان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے رہی ہے کہ صدر کرزئی کی جانب سے تاخیر کی صورت میں امریکہ اس معاہدے سے دستبردار بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن افغانستان و پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی جیمز ڈوبنز نے رواں ہفتے واضح کیا تھا کہ اوباما انتظامیہ فی الحال معاہدے سے دستبردار ہونے پر غور نہیں کر رہی۔
منگل کو امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے بیانِ حلفی دیتے ہوئے جیمز ڈوبنز نے کہا تھا کہ مجوزہ معاہدے میں تاخیر کے باوجود ان کی حکومت افغانستان سے امریکی افواج کامکمل انخلا سے متعلق کسی فیصلے پرفی الحال غور نہیں کر رہی۔