ریپبلیکنز ناقدین کا جواب دیتے ہوئے، رائیس نے کہا ہے کہ بن غازی پر اُن کےبیانات انٹیلی جنس کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات کے ’عین‘ مطابق تھے
واشنگٹن —
سیاسی مباحثے کا عنوان بننے سے پہلے ہی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائیس ایک زیرک مذاکرات کار کا شہرہ پا چکی تھیں، جب کہ کچھ لوگوں کی نظر میں وہ ’کھری‘ اور ’پُر اثر‘ گفت و شنید کا ملکہ رکھتی ہیں۔
انیس سو نوے کی دہائی میں صدر بِل کلنٹن کی خصوصی مشیر اور وائٹ ہاؤس میں افریقی امور کے بارے میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد، رائیس سفارتی حلقوں میں اُبھر کر سامنے آئیں۔
سنہ 1997 سے 2001ء کے دوران رائیس نے افریقی امور کی معاون وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائیٹ رائیس کےخاندان کو اُس وقت سےجانتی ہیں جب وہ ابھی ایک بچی تھیں، اُنھوں نے ہی اُن کی تعیناتی کے لیے صدر کلنٹن سے بات کی۔
بعد ازاں، سنہ 2008 میں صدر اوباما کی انتخابی مہم کے دوران رائیس نے قومی سلامتی امور کی سینئر مشیر کے طور پر کام کیا۔
جب جنوری 2009ء میں مسٹر اوباما نے عہدہ سنبھالا، اقوام متحدہ میں سفیر کےطور پر اُن کی تعیناتی کی توثیق کی گئی، اور اِس طرح وہ پہلی افریقی امریکی خاتون ہیں
جو اِس عہدے پر فائز ہوئیں۔ اُن کی قیادت میں، امریکہ کی طرف سے ایران اور شمالی کوریا کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ گذشتہ سال جب لیبیا میں فوجی مداخلت کے اختیار کے حصول سے متعلق قرارداد پر مذاکرات ہورہے تھے، رائیس نے اِن میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
لیکن، حال ہی میں رائیس کی کامیابیاں نکتہ چینی کا مرکز بنی رہیں۔
ریپبلیکن قانون سازوں نے 48برس کی اِس سفارتکار پر الزام لگایا کہ 11ستمبر 2012ء کو لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پرہونے والے حملے کے معاملے پر اُنھوں نے یہ کہہ کر کہ یہ ایک اچانک نمودار ہونے والا مظاہرہ تھا، بجائے اِس کے کہ یہ ایک باقاعدہ منظم دہشت گرد حملہ تھا، دراصل غلط بیانی سے کام لیا۔
پھر، جب صدر اوباما کی طرف سے ہلری کلنٹن کی جگہ وزیر خارجہ کے طور پر تعیناتی کے لیے رائیس کا نام لیا جانے لگا ، تو کچھ ریپبلیکنز نے کہنا شروع کیا کہ وہ اِس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
رائیس نے کہا ہے کہ بن غازی پر اُن کےبیانات انٹیلی جنس کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات کے عین مطابق تھے۔ صدر اوباما نےبھی اُن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی ذات پر کیے جانے والے حملے ’غیر ذمہ دارانہ‘تھے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں صدر بِل کلنٹن کی خصوصی مشیر اور وائٹ ہاؤس میں افریقی امور کے بارے میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد، رائیس سفارتی حلقوں میں اُبھر کر سامنے آئیں۔
سنہ 1997 سے 2001ء کے دوران رائیس نے افریقی امور کی معاون وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائیٹ رائیس کےخاندان کو اُس وقت سےجانتی ہیں جب وہ ابھی ایک بچی تھیں، اُنھوں نے ہی اُن کی تعیناتی کے لیے صدر کلنٹن سے بات کی۔
بعد ازاں، سنہ 2008 میں صدر اوباما کی انتخابی مہم کے دوران رائیس نے قومی سلامتی امور کی سینئر مشیر کے طور پر کام کیا۔
جب جنوری 2009ء میں مسٹر اوباما نے عہدہ سنبھالا، اقوام متحدہ میں سفیر کےطور پر اُن کی تعیناتی کی توثیق کی گئی، اور اِس طرح وہ پہلی افریقی امریکی خاتون ہیں
جو اِس عہدے پر فائز ہوئیں۔ اُن کی قیادت میں، امریکہ کی طرف سے ایران اور شمالی کوریا کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ گذشتہ سال جب لیبیا میں فوجی مداخلت کے اختیار کے حصول سے متعلق قرارداد پر مذاکرات ہورہے تھے، رائیس نے اِن میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
لیکن، حال ہی میں رائیس کی کامیابیاں نکتہ چینی کا مرکز بنی رہیں۔
ریپبلیکن قانون سازوں نے 48برس کی اِس سفارتکار پر الزام لگایا کہ 11ستمبر 2012ء کو لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پرہونے والے حملے کے معاملے پر اُنھوں نے یہ کہہ کر کہ یہ ایک اچانک نمودار ہونے والا مظاہرہ تھا، بجائے اِس کے کہ یہ ایک باقاعدہ منظم دہشت گرد حملہ تھا، دراصل غلط بیانی سے کام لیا۔
پھر، جب صدر اوباما کی طرف سے ہلری کلنٹن کی جگہ وزیر خارجہ کے طور پر تعیناتی کے لیے رائیس کا نام لیا جانے لگا ، تو کچھ ریپبلیکنز نے کہنا شروع کیا کہ وہ اِس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
رائیس نے کہا ہے کہ بن غازی پر اُن کےبیانات انٹیلی جنس کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات کے عین مطابق تھے۔ صدر اوباما نےبھی اُن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی ذات پر کیے جانے والے حملے ’غیر ذمہ دارانہ‘تھے۔