|
ویب ڈیسک__شام میں بشار الاسد کا تختہ اٹلنے والی اپوزیشن کی فورسز نے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کردیا ہے اور وزیراعظم کے لیے ایسے نام کا اعلان کیا ہے جو شام میں اکثر لوگوں کے لیے نیا ہے۔
عبوری وزیرِ اعظم محمد البشیر جب منگل کو قوم سے خطاب کے لیے سرکاری ٹیلی وژن پر نمودار ہوئے تو یہ شامیوں کے لیے زیادہ جانا پہچانا چہرہ نہیں تھا۔
عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم کے طور پر محمد البشیر کا نام پیر کو ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد جولانی، سبکدوش ہونے والے شامی وزیرِ اعظم محمد جلیلی اور نائب صدر فیصل مقداد کی ملاقات کے بعد سامنے آیا تھا۔
اپنے پہلے ٹیلی وژن خطاب میں محمد البشیر نے بتایا ہے کہ عبوری حکومت یکم مارچ تک کام کرے گی۔
بشار الاسد حکومت کا تخٹہ الٹنے والی باغیوں کی پیش قدمی کی قیادت ایچ ٹی ایس کے پاس تھی اور توقع کی جا رہی تھی کہ دمشق پر قبضے کے بعد بننے والے کسی بھی عبوری انتظام میں الجولانی یا 'ایچ ٹی ایس' کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ محمد البشیر کا تعلق اسی تنظیم سے ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے امور کور کرنے والی برطانوی ویب سائٹ ’مڈل ایسٹ آئی‘ کے مطابق محمد بشیر پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں۔ محمد البشیر ادلب کے جبل الزاویہ کے علاقے میں 1980 کی دہائی کے وسط میں پیدا ہوئے۔
سیلویشن گورنمنٹ کی جاری کردہ کوائف کے مطابق بشیر نے حلب کی یونی ورسٹی سے الیکٹرک انجینئرنگ کی تعلیم حال کی ہے۔
وہ انگریزی زبان جانتے ہیں اور پراجیکٹ مینجمنٹ سے وابستہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد البشیر نے ادلب یونی ورسٹی سے شریعت و قانون کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
شام کی ایک نیوز ویب سائٹ ’لیوینٹ 24‘ کے مطابق ایچ ٹی ایس کی بنائی گئی حکومت میں شمولیت سے پہلے وہ سریئن گیس کمپنی میں 'پرسیشن انسٹرومنٹ ڈپارٹمنٹ' کے سربراہ تھے۔
سال 2021 میں انہوں نے ملازمت چھوڑ کر ادلب کی ’’انقلابی حکومت‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور 2022 سے 2023 تک اس حکومت میں ترقی و سماجی خدمات کے وزیر رہے۔
محمد البشیر عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم بننے سے قبل جنوری 2024 میں شمال مغربی شام کی ایچ ٹی ایس کی قائم سیلویشن گورنمنٹ (حکومۃ الانقاذ السوریہ) کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔
SEE ALSO: اسد حکومت کا تختہ اُلٹنے والے باغیوں کے سربراہ ابو محمد الجولانی کون ہیں؟یہ حکومت 2017 میں شام کے شمال مغربی صوبے ادلب اور اس کے نواحی علاقوں میں ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے قائم تھی۔
ایچ ٹی ایس دراصل شام میں القاعدہ اور دیگر جہادی گروپ سے منسلک رہنے والے جنگجوؤں کی قائم کردہ تنظیم تھی جو 2011 سے شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری بغاوت میں شامل رہے تھے۔
ایچ ٹی ایس کے سربراہ ابو محمد الجولانی 2015 کے بعد القاعدہ سے علیحدہ ہوئے تھے اور انہوں نے شام میں سنی جنگجو گروپس کو منظم کیا تھا۔ بعدازاں اپنے کنٹرول کے علاقوں میں ایچ ٹی ایس نے ایک حکومتی انتظام قائم کیا تھا۔
ادلب میں ایچ ٹی ایس کی قائم کردہ حکومت کو ایک ٹیکنو کریٹ انتظامیہ کہا جا سکتا ہے جس میں تعلیم، صحت جیسے بنیادی شعبے مقامی ادارے اور غیر ملکی امدادی ادارے چلاتے ہیں جب کہ ایچ ٹی ایس سیکیورٹی اور معاشی پالیسی جیسے امور دیکھتی ہے۔
تاہم مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ادلب پر ایچ ٹی ایس کی حکومت میں آزادیٔ اظہار، تشدد، بلاجواز حراست اور مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے اقدامات کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔