عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خطرات بدستور بہت زیادہ ہیں۔
وبا کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں وبا کے تیزی سے پھیلنے کی بڑی وجہ اومیکرون قسم ہی ہے۔ کئی مقامات پر اومیکرون کے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد ڈیلٹا ویریئنٹ سے تجاوز کر چکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا مزید کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے متعلق مجموعی طور پر موجود خطرات اور اندیشے بدستور بہت زیادہ ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شواہد متواتر سامنے آ رہے ہیں کہ اومیکرون ویریئنٹ کرونا کی ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں دو یا تین دن میں کئی گنا تیزی سے پھیلتا ہے۔ کئی ممالک میں کیسز تیزی سے پھیلے ہیں جن میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں جہاں اب اومیکرون کے کیسز کی تعداد سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہی ہے۔
کرونا وائرس کی اومیکرون قسم جنوبی افریقہ میں نومبر میں سامنے آئی تھی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق جنوبی افریقہ میں اس کے کیسز کی تعداد میں اب 29 فی صد تک کمی آ چکی ہے۔
جنوبی افریقہ میں حکومت نے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے قرنطینہ کے لیے تشکیل دی گئی پالیسی پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا ہے۔
قبل ازیں حکومت نے قرنطینہ کے حوالے سے یہ پالیسی متعارف کرائی تھی کہ وہ افراد جو کرونا سے متاثرہ شخص سے ملے ہوں تو ان کے لیے اس وقت تک ٹیسٹ یا قرنطینہ لازم نہیں ہے جب تک ان میں وبا کے اثرات ظاہر نہ ہوں۔ البتہ منگل کو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس حوالے سے ایک ترمیم شدہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنوبی افریقہ کے محکمۂ صحت نے کہا ہے کہ وبا سے متاثرہ افراد سے رابطے میں آنے والوں کو قرنطینہ اختیار کرنا ہو گا۔
دوسری جانب امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کہا ہے کہ کرونا کے گھروں میں برق رفتار ٹیسٹ کے نتائج ممکنہ طور پر اومیکرون ویریئنٹ کے حوالے سے غلط ہو سکتے ہیں۔
امریکہ میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے لیے قرنطینہ کا دورانیہ 10 دن سے کم کرکے پانچ دن کرنے کی تجویز پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
قبل ازیں امریکہ میں صحتِ عامہ کے نگراں ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے حکام نے کہا تھا کہ وبا سے متاثر افراد ابتدائی دو دن میں زیادہ زیرِ اثر رہتے ہیں جب کہ وبا کے اثرات سامنے آنے کے تین دن بعد تک یہ برقرار رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ میں حالیہ دنوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں امریکہ میں تین لاکھ 77 ہزار کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ اس سے ایک دن قبل پانچ لاکھ افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔
امریکہ میں اومیکرون کیسز کی تعداد کل کیسز کی تعداد کے 58.6 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔
دوسری جانب آسٹریلیا میں بھی وبا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ بدھ کو سامنے آنے والے کیسز میں سب سے زیادہ کیسز اومیکرون ویریئنٹ کے ہیں۔
اس حوالے سے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آسٹریلیا میں سڈنی اور ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے اردگرد کے علاقوں میں کیسز میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز میں ایک دن قبل چھ ہزار کیسز سامنے آئے تھے جب کہ گزشتہ روز 11 ہزار کیسز کا اندراج ہوا تھا۔ اسی طرح ریاست وکٹوریا میں ایک دن قبل ایک ہزار کیسز تھے جب کہ گزشتہ روز کیسز کی تعداد 3700 سے زائد تھی۔
بھارت میں کرونا کیسز میں ایک دفعہ پھر اضافہ ہوا ہے اور ایک دن میں 44 فی صد زائد کیسز سامنے آئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بھارت میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 781 کیسز سامنے آئے ہیں۔ زیادہ کیسز نئی دہلی میں سامنے آ رہے ہیں جب کہ مہاراشٹرا میں بھی کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
فرانس میں کرونا وائرس کے ایک دن میں ریکارڈ ایک لاکھ 79 ہزار کیسز سامنے آئے ہیں۔
فرانس میں ایک بار پھر کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے بعد پابندیوں میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں منگل کو ایک دن میں ایک لاکھ 29 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار میں اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں سامنے آنے والے کیسز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ملک میں اومیکرون کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک 75 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ملک میں 27 دسمبر تک 75 افراد کے وبا کی نئی قسم اومیکرون سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔