بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت بدھ کو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ انہیں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بعض حلقے ایک ملٹری ہاک یا جارحانہ پالیسی اور خیالات کے حامی فوجی کے طور پر جانتے تھے۔ اس کی وجہ غالباً اُن کے وہ سخت گیر اور معاندانہ بیانات ہیں جو انہوں نے بھارت کی بّری فوج کے سربراہ اور پھر ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی حیثیت سے وقتاً فوقتاً پاکستان، چین اور کشمیر کے بارے میں دیے۔
جنرل بپن کی موت کے ساتھ ہی ایک سخت گیر فوجی کے چالیس سال سے زائد عرصے پر محیط کریئر کا المناک اختتام ہوا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں ان کی اہلیہ مدھولیکا، معاونین اور ذاتی محافظ بھی ہلاک ہوئے تھے۔
سولہ مارچ 1958 میں موجودہ بھارتی ریاست اُترا کھنڈ میں ایک فوجی خاندان میں پیدا ہونے والے جنرل راوت نے بھارت کی بری فوج کی کمان اس وقت سنبھالی تھی جب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جولائی 2016 میں عسکری کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بدامنی کے واقعات عروج پر پہنچ گئے تھے۔
مقامی نوجوانوں نے اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے حفاظتی دستوں پر سنگ باری کو اپنی اہم سرگرمی بنالیا تھا۔ یہ سلسلہ طول پکڑ گیا۔ وادیٔ کشمیر میں شورش عروج پر تھی کہ اسی دوران بھارتی حکومت نے جنرل راوت کو دو سینئر لیفٹننٹ جنرلز پروین بخشی اور پی ایم ہارز پر فوقیت دیتے ہوئے فوج کا 27واں سربراہ مقرر کیا۔
بپن راوت نے فوجی کی کمان سنبھالنے کے بعد کہا تھا کر اگر سنگ بازی کرنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھروں کے بجائے بندوقیں ہوتیں تو فوج کے لیے ان سے نمٹنا آسان بن جاتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کشمیری سنگ بازوں کو 'جہادیوں کے معاونین' سمجھا جائے گا۔
SEE ALSO: پاکستانی کشمیر کا قبضہ چھڑانے کے لیے تیار ہیں، بھارتی آرمی چیفناقدین بالخصوص بھارت کے اُن سیاسی حلقوں نے جو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں برس ہا برس سے جاری شورش اور عوامی مزاحمت کا افہام و تفہیم اور ڈائیلاگ کے ذریعے خاتمہ چاہتے تھے، جنرل راوت کے بیانات پر شدید تنقید کی تھی۔
جنرل راوت تنقید کے باوجود نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور چند دوسرے علاقوں میں سرگرم جنگجوؤں اور ماؤ وادی باغیوں سے نمٹنے کے لیے مسلسل سخت گیر اقدامات اٹھانے کی وکالت کرتے رہے۔ وہ اس سوچ اور اپروچ پر عمل درآمد کے لیے ہدایات بھی جاری کرتے رہے۔
وادیٔ کشمیر میں شہری ہلاکتوں میں حالیہ اضافے کے پس منظر میں انہوں نے کہا تھا کہ علاقے میں مزید سخت گیر اقدامات اٹھانے اور قدغنیں لگانے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا۔
انہوں نے پاکستان کے بارے میں بھی بارہا سخت جملوں پر مبنی بیانات دیے تھے اور اسے اُن کے بقول کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی اور در پردہ جنگ جاری رکھنے پر خمیازہ اٹھانے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔
سرجیکل اسٹرائیکس اور آپریشن بالا کوٹ
جنرل راوت نے 17 دسمبر 2016 کو بھارت کے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ سنبھالا۔ اس سے قبل ستمبر 2016 میں جب وہ ملک کے وائس چیف آف آرمی اسٹاف تھے تو اس وقت اوڑی حملے کا واقعہ پیش آیا۔
یہ حملہ متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے اوڑی علاقے میں واقع بھارت کی فوج کی 21 انفنٹری بریگیڈ کے صدر دفاتر پر ہوئے تھے جس میں 19 فوجی ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے کے جواب میں بھارتی فوج نے پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں دہشت گردی کے مبینہ بنیادی ڈھانچے کو سرجیکل اسٹرائیک کر کے شدید نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اسلام آباد نے ایسی کسی بھی کارروائی کی تردید کی تھی۔
SEE ALSO: بھارت ملکی ساختہ ہتھیاروں پر انحصار بڑھائے: جنرل بپن راوتچودہ فروری 2019 کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف پر ایک خود کُش حملہ ہوا جس میں 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت نے اس حملے کے لیے بھی پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا اور دو ہفتے بعد اس کی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے کے علاقے بالا کوٹ میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس حملے کے اگلے ہی روز پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے جوابی کارروائی کی تھی جس میں بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن کے طیارے کو تباہ کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔
بھارت، پاکستان تعلقات انحطاط کا شکار
بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات شروع سے ہی اتار چڑھاوٴ کا شکار رہے ہیں جن میں اکثر کشیدگی غالب رہی ہے۔ لیکن جنرل راوت کے فوج کے سربراہ اور پھر چیف آف ڈینفنس اسٹاف کے عہدوں پر ان کے فائز رہنے کے دوران اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
گزشتہ چند برس کے دوران طرفین کے تعلقات پست سطح پر نظر آئے اور بڑھتی ہوئی کشیدگی، سرحدوں پر تناؤ اور جنگ کے خدشات جنم لیتے رہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ رواں برس کشمیر کی سرحدوں پر تعینات دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جنگ بندی کے سمجھوتے کی تجدید ہوئی اور تا حال دونوں اس پر قائم ہیں۔
گزشتہ برس بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان لداخ علاقے میں ہونے والی جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کے عسکری کمانڈروں کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوئے ہیں اور ان کے نتیجے میں طرفین کے درمیان تناؤ میں کچھ کمی تو آئی ہے اور کچھ علاقوں سے فوجوں کو واپس بھی بلایا گیا ہے لیکن مذاکرات عملاً تعطل کا شکار ہیں۔
لداخ کے ساتھ ساتھ ارونا چل پردیش کے علاقے میں بھارت۔چین متنازع لائن آف ایکچول کنٹرول پر وقفے وقفے سے کشیدگی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ بعض سیاسی اور فوجی تجزیہ کاروں کی رائے میں طرفین کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کسی بھی وقت محاذ آرائی میں بدل سکتی ہے۔ بھارت۔چین تنازعات کے معاملے میں بھی جنرل راوت کی شبیہ ایک ہاک کے طور پر ابھری۔
جنرل راوت نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگرچہ اُن کے ملک کے نیپال اور سری لنکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان ملکوں میں کمیونٹی پروجیکٹس اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے چینی سرمایہ کاری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ چین کے بھارت کے پڑوسیوں، خاص طور پر بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ تعلقات بھارت کے حق میں نہیں ہیں کیوں کہ ان کے بقول ان سے ایک ایسے فوجی خطرات کے پنپنے کا امکان ہے جو بھارت کی علاقائی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری ان کی شراکت داری کو عیاں کرتی ہے لیکن ان کے بقول "کشمیر کے علاقے میں پاکستان کی ریاستی سرپرستی میں جاری دہشت گردی کی حمایت کے پس منظر میں یہ بھارت کے خلاف واضح اسٹینڈ اور اس کے بین الاقوامی مفادات کے لیے خطرہ ہے۔"
کئی سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کی یہ رائے بھی ہے کہ جنرل راوت ایک سخت گیر سپاہی ضرور تھے اور قدر دانوں اور ناقدین دونوں کے نزدیک ایک متاثر کُن کمانڈر بھی لیکن ان کے خیالات اور اقدامات بھارت میں موجودہ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے مؤقف، پالیسیوں اور ایجنڈے کی عکاسی بھی کرتے تھے۔
بھارتی مسلح افواج بالخصوص بّری فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اہلکاروں کے کام کاج کی صورتِ حال میں بہتری لانے، ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرانے کی ان کی کوششوں کو بھی خوب سراہا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھارتی فوج کو موجودہ تقاضوں کے مطابق دوبارہ منظم کر کے آئندہ جنگیں لڑنے کے قابل بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم بھارت کے ایک سابق فوجی افسر میجر جنرل (ر) اشوک کمار مہتا نے جنرل راوت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ "ایک چیز جو لوگوں کو پسند نہیں تھی وہ تھی ان کی وردی کے سرخ شانہ زیب۔ ایک اور معاملہ جس کے بارے میں مجھے تحفظات تھے وہ یہ تھا کہ بدقسمتی سے وہ کس طرح متعدد سیاسی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوئے جو سابق فوجیوں کی برادری کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا۔ پھر بھی راوت ایک شریف آدمی اور ایک بہادر ، پیشہ ور اور قابل فخر گورکھا تھے۔ کسی کا ان کی جگہ لینا مشکل ہو گا۔"