پاکستان میں عام انتخابات کے بعد سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ ایک جانب جہاں وفاق میں حکومت سازی کی کوششیں جاری ہیں تو وہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کے لیے پراُمید ہے۔
پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آنے والے مختلف ناموں میں مریم نواز کا نام سرِفہرست ہے۔
وزارتِ اعلٰی کے لیے قصور سے رُکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے ملک احمد خان کا نام بھی زیرِ غور ہے۔
مریم نواز لاہور کے حلقہ این اے 119 کے علاوہ لاہور سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 159 سے بھی کامیاب ہوئی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے لیگی اُمیدوار کا فیصلہ جماعت کے قائد نواز شریف کریں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پنجاب اسمبلی کی 296 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 137 نشستیں حاصل کی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں کامیاب ہونے والے آزاد امیداروں کی تعداد 138 ہے جن میں سے اکثریت نے پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت کے ساتھ الیکشن لڑا تھا۔
پنجاب اسمبلی میں منتخب ہونے والے کئی آزاد اراکین کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ وہ پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں جس کے بعد وہ بہ آسانی پنجاب میں حکومت قائم کر لے گی۔
مسلم لیگ (ن) نے مرکز اور صوبے میں حکومت سازی کے لیے رابطے شروع کردیے ہیں البتہ عوامی حلقوں میں ایسے کئی سوالِ زیر بحث ہے کہ کیا پنجاب میں بھی مخلوط حکومت بنے گی؟ کیا بڑی تعداد میں پنجاب سے کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار سرپرائز دے سکیں گے؟ اور کیا پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی خاتون وزارتِ اعلیٰ کے منصب تک پہنچ پائیں گی؟
SEE ALSO:
سیاست اور انتخابات کے گرد گھومنے والی فلمیںتحریکِ انصاف اور مجلس وحدت مسلمین میں قربتیں، معاملہ کیا ہے؟قتل کے مقدمے کی سماعت میں 500 ایس ایم ایس کرنے والی امریکی جج مستعفیڈونلڈ ٹرمپ کے نیٹو سے متعلق بیان پر مغربی ممالک کی تنقید'پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے مریم نواز فیورٹ ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے حامی ارکان کو اکثریت حاصل ہے اور وہ فیصلہ کن پوزیشن میں آ گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کی وزارتِ اعلٰی ملکی سیاست میں بہت اہمیت کی حامل سمجھتی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ پنجاب کا وزیرِ اعلٰی پھر وزیرِ اعظم بھی بنتا ہے جس کی مثالیں موجود رہی ہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مرکز میں مخلوط حکومت بنے گی، لہذٰا اگر مریم نواز پنجاب میں وزیرِ اعلٰی بنتی ہیں تو پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کو بھی پنجاب میں وزارتیں دی جائیں گی۔
مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی پرویز بشیر کہتے ہیں کہ مرکز میں حکومت سازی کا عکس پنجاب میں بھی نظر آئے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر مرکز میں نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو پھر ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں دوبارہ شہباز شریف وزیرِ اعلٰی بن جائیں۔ لیکن اس کا امکان کم ہے، لہذٰا پنجاب میں مریم نواز ہی وزارتِ اعلٰی کے لیے فیورٹ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نتائج نے بہت کچھ بدل دیا
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ انتخابات سے قبل یہ سوچ بھی تھی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) حکومت بنائے گی، لیکن وزیرِ اعلٰی کا تعلق استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) سے ہو گا اور اس ضمن میں عبدالعلیم خان کا نام بھی سامنے آ رہا تھا۔
سلمان غںی کے بقول آئی پی پی انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی، لہذٰا اب اسے وزارتِ اعلٰی دینا ممکن نہیں رہا۔ واضح رہے کہ عبدالعلیم خان آئی پی پی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔
شریف خاندان سے حمزہ شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔
آئندہ سیاسی سیٹ اپ میں حمزہ شہباز شریف کا مستقبل کیا ہو گا؟ سلمان غنی کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پنجاب میں حمزہ شہباز کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ لیکن وہ پنجاب اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکے تھے۔
پرویز بشیر کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز شریف اس ساری صورتِ حال میں خاموش ہیں کیوں کہ اُنہیں پتا ہے کہ اس دفعہ اُن کی باری نہیں آئے گی۔
واضح رہے کہ ماضی میں دو مرتبہ ایسے مواقع آئے جب نواز شریف ملک کے وزیرِ اعظم تھے جب کہ شہباز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلٰی دی گئی۔
مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقوں نے ان فیصلوں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا اور اسے موروثی سیاست قرار دیا تھا۔
کیا مسلم لیگ (ن) کے اندر پھر اس پر آوازیں اُٹھیں گی؟ پرویز بشیر کہتے ہیں کہ مریم نواز مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر بھی ہیں اور نواز شریف کی غیر موجودگی میں اُنہوں نے پنجاب میں پارٹی کو منظم کیا۔
اُن کے بقول گو کہ پارٹی کے اندر وزارتِ اعلٰی کے اُمیدوار موجود ہیں، لیکن مریم نواز کی بطور وزیرِ اعلٰی نامزدگی پر زیادہ اعتراضات سامنے نہیں آئیں گے۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کا کیا ہو گا؟
سلمان غنی کہتے ہیں کہ اگر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو کسی پارٹی کی حمایت کے بغیر منتخب ہونے والے آزاد اُمیدوار حکومت میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے۔
اُن کے بقول پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار بدستور ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر پنجاب اسمبلی میں موجود رہیں گے، جو حکومت کے لیے خطرہ رہے گا۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ وفاق اور مرکز میں اتنی مضبوط اپوزیشن کے ہوتے ہوئے، انہیں نہیں لگتا کہ یہ اسمبلیاں زیادہ دیر چلیں گی، لہذٰا یہ معاملہ ڈانوں ڈول ہی رہے گا۔