اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے?

مصر میں اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس 'سی او پی 27 ' جاری ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات اور آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور دیگر معاملات زیرِ بحث ہیں۔

مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوامِ متحدہ کے تحت چھ نومبر سے 18 نومبر تک جاری رہنے والی کانفرنس میں مختلف ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود اور عالمی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت منعقدہو رہی ہے جب حال ہی میں پاکستان کو اپنی تاریخ کے تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس سیلاب کی وجہ سے ہونے والے اقتصادی اور مالی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔

اس کانفر نس میں پاکستان ترقی پذیر ملکوں پر مشتمل جی 77 ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے ان ملکوں میں آنے والی آفات سے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ کر رہا ہے۔

شہباز شریف نے رواں ہفتے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاسوں میں خطاب کرتےہوئے پاکستان میں آنے والے حالیہ تباہ کن سیلاب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح ایک ملک کو متاثر کر سکتی ہے یہ سب نے پاکستان میں دیکھ لیا ہے۔


اُنہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی کو بھی کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں کیے گئے وعدے پورے کیے جا سکیں۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اگر چہ عالمی حدت میں اضافہ کرنے والے اسباب میں ان کا حصہ بہت کم ہے ۔

پاکستان کو توقع ہے کہ عالمی برادری ایسے وقت میں پاکستان کی مدد کرے گی جب پاکستان کی معیشت ایک مشکل صورتِ حال سے دو چار ہے اور پاکستانی حکام کہہ چکے ہیں کہ ملک میں سیلاب سے لگ بھگ تین کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور تعمیرِ نو کے لیے قرضوں میں چھوٹ دی جائے یا انہیں مؤخر کیا جائے تاکہ پاکستان ان وسائل سے سیلاب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کر سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خطرات سے دو چار ترقی پذیر ممالک گزشتہ ایک دہائی سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فنڈ قائم ہونا چاہیے۔

ماہر موسمیات ڈاکٹر قمرالزمان کہتے ہیں کہ اب پہلی بار اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس میں ا س معاملے کو زیرِ بحث لانا ان کے بقول ایک خوش آئند بات ہے اور کانفرنس کے رکن ممالک کے درمیان اس معاملے پر سیر حاصل بحث کی توقع ہے۔

یاد ر ہے کہ اقوامِ متحدہ کے تحت 2009 مین کوپن ہیگن میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران دنیا کے ترقی یافتہ امیر ممالک نے اس فنڈ کے تحت ہر سال 100 ارب ڈالر جمع کرنے تھے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کے لیے صاف توانائی پیدا کرنے کے وسائل انہیں فراہم کیے جا سکیں۔

قمرالزمان کہتے ہیں کہ ا س فنڈ کے لیے ایک میکنزم قائم کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک مطلوبہ فنڈز کے لیے مقرر کیے گئے اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔


پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ سے دنیا میں یہ احسا س ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک عالمی معاملہ ہے اور اگر اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جلد اقدامات نہ کیےگئے تو کئی اور ممالک بھی موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔

قمر الزمان نے کہا کہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے کوئی اتفاق رائے سامنے آ سکتا ہے۔

قمر الزمان کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے سی او پی 27 کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے ان کےبقول یہ کانفرنس پاکستان کے لیے ایک امید کی کرن ہے کہ کیوں کہ یہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی معاونت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کے ماہر علی توقیر شیخ کہتے ہیں کہ اس کانفرنس کے ذریعے عالمی سطح پر ہمار ے رابطوں اور بات چیت میں اضافہ ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا موقع ملا ہے۔

علی توقیر شیخ کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کو تاحال عالمی برادری کی طرف سے توقع کے مطابق معاونت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن مصر میں ہونے والی کانفرنس پاکستان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرسکتی ہے تاکہ پاکستان عالمی برادری کو حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہ کر سکے ۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں ایک احساس پید ا ہو گیا ہے کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی ایک نہایت ہی سنگین خطرہ بن گئی ہے ۔

توقیر شیخ کہتے ہیں کہ پاکستان کی توقع کے برخلاف یوکرین کی جنگ اور دنیا میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور عالمی معیشت کو درپیش مسائل کی وجہ سے پاکستان کے لیے بین الاقوامی فنڈز حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بار بار آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے اب بین الاقوامی برادری کی طرف سے بغیر کسی شرط کے فنڈز فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ دوسری جانب امداد فراہم کرنے والے ادارے اور ممالک اب توقع کرتے ہیں کہ ہنگامی طور پر انسانی بہبود کے لیے ملنے والی امداد میں زیادہ سے زیادہ شفافیت لائی جائے۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کو اندرونی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی اثرات سے نمٹنے کے لیے دورس پالیسی وضع کرنا ہو گی تاکہ پاکستان میں درجہ حرارت میں اضافے کو کم سے کم رکھا جا سکے۔

پاکستان میں آنے والے شدید سیلاب کے بعد اقوامِ متحدہ نے ابتدائی طور پر لگ بھگ 95 لاکھ افراد کو صاف پانی، خوراک اور عارضی رہائش فراہم کرنے کے لیے 16 کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کی تھی جسے بعد ازاں بڑھا کر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کر دیا گیا تھا لیکن اقوامِ متحدہ کے مطابق ابھی اکتوبر تک صرف نو کروڑ ڈالر مل سکے ہیں۔