وزارتِ داخلہ نے 'اے آر وائی' کی سیکیورٹی کلیئرنس کس بنیاد پر واپس لی؟

پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے مطابق حساس اداروں کی منفی رپورٹس کے بعد نجی ٹی وی نیٹ ورک 'اے آر وائی' کی سیکیورٹی کلیئرنس واپس لے لی ہے جس کے بعد صحافتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

وزارتِ داخلہ نے یہ فیصلہ چند روز قبل اے آر وائی نیوز پر تحریکِ انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے افواجِ پاکستان سے متعلق متنازع بیان کے بعد لیا ہے۔ مذکورہ بیان کے بعد شہباز گل پر غداری کا مقدمہ درج کر کے اُنہیں گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال، ہیڈ آف نیوز عماد یوسف اور دیگر کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اے آر وائی گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال نے اس معاملے پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گروپ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اے آر وائی کے ساتھ ایسا سلوک اس وقت بھی ہوتا تھا، جب ہمارے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ ادارہ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہے۔

اے آر وائی نیوز کی نشریات اس وقت ملک میں چند ایک مقامات کے علاوہ بیشتر مقامات پر بند ہیں اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود کسی بھی جگہ اے آر وائی نیوز نہیں دکھایا جارہا۔


این او سی منسوخی کا کیا مطلب ہے؟

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم کہتے ہیں کہ سیکیورٹی کلیئرنس کسی چینل کی نہیں بلکہ اس کے ڈائریکٹرز کی ہوتی ہے۔

ان ڈائریکٹرز کے نام آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کو بھیجے جاتے ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا ان تمام ڈائریکٹرز کے نام سیکیورٹی سے کلئیر ہیں یا نہیں۔ ان دونوں اداروں کی رپورٹس وزارت داخلہ کو بھجوائی جاتی ہیں اور یہ ادارے ان افراد کے بارے میں منفی یا مثبت رپورٹس دیتے ہیں۔

ابصار عالم کے بقول ان اداروں کی طرف سے صرف مثبت یا منفی رپورٹس دی جاتی ہیں وجوہات نہیں بتائی جاتی اور نہ یہ ادارے وجوہات بتانے کے پابند ہیں۔ اس کے بعد وزارتِ داخلہ ان رپورٹس کی بنیاد پر این او سی دینے یا مسترد کرنے کا حکم جاری کرتی ہے۔

ابصار عالم نے کہا کہ اس سے قبل ماضی میں بھی کئی اداروں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے، نجی ٹی وی چینل بول ٹی وی کا این او سی بھی پہلے مسترد کردیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ڈی ٹی ایچ سروس کے لیے تین لائسنس جاری کیے گئے تھے جن میں سے دو کمپنیوں کو سیکیورٹی کلئیرنس نہ ملنے کی وجہ سے انہیں لائسنس جاری ہی نہیں کیے گئے تھے۔

اس سوال پر کہ ایک ادارہ 20 سال سے چل رہا ہے اور اچانک ان کی کلئیرنس واپس لے لی گئی، اس بارے میں ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اس بارے میں عدالت ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے۔ اُن کے بقول ماضی میں کچھ فیصلے ایسے بھی آئے جن میں کہا گیا کہ ایک بار کلیئرنس دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی اور اگر واپس لی جائے گی تو اس کی وجوہات بتانا ہوں گی۔ تاہم اب یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور وہی اس پر بہتر فیصلہ دے سکتی ہے۔


این او سی منسوخی کے بعد کیا ہوگا؟

اس سوال پر ابصار عالم کا کہناتھا کہ جن ڈائریکٹرز کی سیکیورٹی کلیئرنس واپس لی گئی ہے وہ اے آروائی گروپ کے جس جس چینل کے ڈائریکٹر ہوں گے، سب کی کلیئرنس واپس لے لی جائے گی۔ یہ سیکیورٹی کلیئرنس کی واپسی ایک چینل کے لیے نہیں بلکہ ان سب چینلز کے لیے ہو گی۔ اس کے بعد پیمرا کے طریقہٗٔ کار کے مطابق لائسنس منسوخی کے لیے انہیں نوٹس جاری کیا جائے گا اور ان کی بات سننے اور پیمرا کے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پیمرا قوانین کے مطابق لائسنس معطل نہیں ہوتا بلکہ صرف منسوخ کیا جاتا ہے۔

SEE ALSO: پاکستان: بغاوت کے اکثر مقدمات میں الزام ثابت کیوں نہیں ہو پاتا؟


ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اے آر وائی کو 15 سال کا لائسنس ملا جو 2019 میں مکمل ہوا تھا اس کے بعد گزشتہ سال ان کے لائسنس میں مزید 15 برس کی توسیع کر دی گئی تھی۔

ماضی میں میرے خلاف بلوچستان میں دہشت گردی کا مقدمہ کرا دیا گیا: سلمان اقبال

سلمان اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ماضی میں میرے خلاف بلوچستان میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کروایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ "شہباز گل کے بیان کو بنیاد بنایا جا رہا ہے، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ شہباز گل کیا بات کرنا چاہ رہا ہے۔ انہوں نے میرے کہنے پر تو یہ بیان نہیں دیا ، ہم ایک پلیٹ فارم ہیں ، اب اگر انہوں نے کوئی بات کی تو ہم کیسے بتا سکتے کہ وہ کیا کہنے جا رہے ہیں۔"

سلمان اقبال نے کہا کہ اس وقت پورے گروپ کی نشریات کو خطرہ ہے۔ حکومت کسی طور یک طرفہ طور پر کلیئرنس واپس نہیں لے سکتی، قوانین کے مطابق کسی ڈائریکٹر کا کسی عدالت سے سزا یافتہ ہونے پر کلئیرنس واپس لی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ اگر ہم پر کوئی شکوک تھے تو ہمیں شوکاز نوٹس تو دیا جاسکتا تھا ۔

اس سوال پر کہ ماضی میں اے آر وائی گروپ کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا تھا لیکن اب کیا اے آروائی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں پیدا ہوچکی ہیں؟ سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ یہ حکومت ہمارے خلاف ہے اور ہمیں عدالتوں میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کا اے آر وائی نیوز پر یہ الزام رہا ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کی حمایت میں صحافتی اُصولوں کی خلاف ورزی سے گریز نہیں کرتا۔ مسلم لیگ (ن) اے آر وائی پر فیک نیوز اور جھوٹے پروپیگنڈے کے الزامات بھی عائد کرتی رہی ہے۔

سلمان اقبال کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے خود اے آر وائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اگر وہ خود آ کر اپنا مؤقف نہیں دیں گے تو پھر دوسرا فریق تو اس کا فائدہ اُٹھائے گا، اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں۔

'جو ہمارے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے'

سلمان اقبال نے کہا کہ حکومت کے اس اقدام سے چار ہزار لوگوں کے بیروزگار ہونے کا ڈر ہے۔ اس وقت جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے، اگر ایک مرتبہ یہ مثال قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کیا یہ باقی چینلز کو چھوڑیں گے؟ اداروں میں تبدیلی آتی رہتی ہے، اگر میڈیا خاموش رہا تو باقی سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا اور سب اداروں کا گلہ گھونٹا جائے گا، کل کو یہ جیو اور پھر ایکسپریس اور باقی چینلز کے ساتھ ہوگا۔

میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنانے کے سوال پر سلمان اقبال نے کہا کہ حکومتیں ہمیشہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول پر کام کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے پلیٹ فارم سے ہم نے میڈیا میں اتحاد پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں، لیکن پی بی اے میں بہت دراڑیں ہیں اور حکومت بھی میڈیا گروپس کو متحد نہیں ہونے دیتی۔


بدقسمتی سے حالات نے اے آروائی بند کرنے کا حکومت کو موقع دیا: فواد چوہدری

اے آر روائی نیوز کے این او سی کی منسوخی پر ردِعمل دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ وہ خواب تھا جو موجودہ حکومت بہت عرصے سے دیکھ رہی تھی۔

اپنی ٹویٹ میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حالات نے حکومت کو موقع دے دیا اور آج پاکستان میں عملی طور پر میڈیا کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔