پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کے نویں ایڈیشن کے میچز اس وقت لاہور اور ملتان میں کھیلے جا رہے ہیں۔ لیکن اس بار یہ اسپورٹس ایونٹ شائقین کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پایا ہے بلکہ ابتدا ہی میں اسے بائیکاٹ مہم کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
پی ایس ایل پر کرکٹ لورز کی کم توجہ کی وجہ ملک کی سیاسی صورتِ حال سمجھی جا رہی ہے۔ لیکن مبصرین کے خیال میں اس کے پیچھے اور بھی کئی اسباب ہیں جن میں سب سے اہم سرکاری ٹی وی پر اس ایونٹ کا نشر نہ ہونا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کو اس بار پی ایس ایل انتطامیہ نے اپنے براڈکاسٹنگ پارٹنرز میں شامل نہیں کیا جس کی وجہ سے پی ٹی وی اسپورٹس پر پی ایس ایل نائن کے میچز نہیں دکھائے جا رہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ پی ایس ایل‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ بائیکاٹ کی یہ مہم نہ تو پی ٹی وی پر پی ایس ایل میچز نشر نہ ہونے سے متعلق ہے اور نہ ہی کسی کھلاڑی سے جڑا کوئی تنازع اس کا محرک ہے۔
اس ہیش ٹیگ کے پیچھے وہ صارفین ہیں جن کے خیال میں پی ایس ایل کی انتظامیہ کو ایک انٹرنیشنل برینڈ 'کے ایف سی' کو بطور اسنیکس پارٹنر منتخب نہیں کرنا چاہیے تھا۔
SEE ALSO: پی ایس ایل 9 میں کس ٹیم کا پلڑا بھاریبائیکاٹ مہم چلانے والے 'کے ایف سی' کو غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کا حامی قرار دیتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق کے ایف سی کی مالک کمپنی ’یم برانڈز‘ ہے جس کی سیل غزہ جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کا مؤقف تھا کہ اس کمپنی نے غزہ میں ہونے والے حملوں کے بعد اپنے سوشل میڈیا پر میم شئیر کی، جس کی وجہ سے کرکٹ بورڈ کو ان کی جگہ کسی اور اسپانسر کا انتظام کرنا چاہیے۔
متعدد صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ہیش ٹیگ گزشتہ تین دنوں سے ٹاپ ٹرینڈز میں موجود ہے۔
ٹی وی میزبان ڈاکٹر بشریٰ اقبال نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے حکام بالا پر زور دیا کہ وہ کچھ تو احساس کریں، اگر کے ایف سی اور پی ایس ایل کی پارٹنرشپ ہوگی تو وہ اس ایونٹ کا بائیکاٹ کریں گی۔
ڈیزائنر ماریہ بی نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں انہوں ںے لیگ کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔
صارف ماجد خان کے خیال میں پی ایس انتظامیہ کی اس ڈیل کے بعد نہ تو کسی کو پی ایس ایل کا ٹکٹ خریدنا چاہیے اور نہ ہی کوئی میچ دیکھنا چاہیے۔
اسری غوری سمجھتی ہیں کہ پی ایس ایل اس کمپنی کو پروموٹ کر رہی ہے جو مصیبت میں فلسطینی عوام کا مذاق اڑا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر کے ایف سی پاکستان کی انتظامیہ نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وابستگی کے حوالے سے جو بھی باتیں ہو رہی ہیں وہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ وہ کسی بھی ایسی مہم کا حصہ نہیں جس سے پاکستان کے عوام کی دل آزاری ہو۔
بعض صارفین نے پی ایس ایل کی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے ایونٹ میں شامل ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔
زویا عباس نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ جب گزشتہ سال محمد رضوان نے مبینہ طور پر جوئے میں ملوث ہونے والی کمپنی کا لوگو چھپا کر پی ایس ایل میں شرکت کی تھی تو اس سال کے ایف سی کا لوگو کیوں نہیں چھپایا؟
بعض سوشل میڈیا صارفین نے بائیکاٹ مہم پر بھی سوال اٹھائے ہیں جن میں احتشام صدیق نامی ایک صارف بھی شامل ہیں۔
ان کے خیال میں پی ایس ایل کا بائیکاٹ کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ کے ایف سی پاکستان کا ایک برانڈ ہے جس سے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، اس بائی کاٹ سے انہیں فرق پڑے گا۔
صارف فرید خان نے بائیکاٹ پی ایس ایل سے قطع نظر ایک دل چسپ ایکس بیان میں کہا کہ پی ٹی وی پر میچ نہ دکھانے کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کو پی ایس ایل سے دور رکھنا ہے۔