پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر سے تعلق رکھنے والے صحافی الیاس سموں کو 17 اگست کی رات کو سندھ پولیس نے گھر سے گرفتار کیا۔اہلکاروں نے انہیں تھانے لے جانےکے بجائے رات بھر ایک ایک کمرے میں رکھا۔
الیاس سموں کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس اہلکاروں نے منہ میں کپڑا ٹھونس کر، ہاتھوں میں ہتھکڑی اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھا۔ اس دوران یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ اس بات کی ضمانت دیں کہ آئندہ وہ علاقے کو درپیش مختلف مسائل کو اجاگر نہیں کریں گے۔ ایسا نہ کرنے پر انہیں مختلف دھمکیاں بھی دی گئیں۔ آخر کار ان کے خلاف 19 گھنٹے گزرنے کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ ان سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
پولیس نے انہیں اگلے روز مقامی عدالت میں پیش کیا جہاں سے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ الیاس سموں کو تین راتیں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہائی ملی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل بھی انہیں ان کی رپورٹنگ کی بنا پرمقامی سیاست دانوں کے فرنٹ مینوں کی جانب سے دھمکیاں مل چکی ہیں۔ ادھر صوبے کی اعلیٰ ترین عدالت سندھ ہائی کورٹ نے صحافی کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس حکام کو 25 اگست کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوکر وجوہات بتانے کا حکم دیا ہے۔
ایس ایس پی ٹھٹھہ عدیل چانڈیو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس ایف آئی آر کے اندراج میں کوئی مسئلہ ہوا ہے۔ اس لیے پولیس نے فوری طور پر ایف آئی آر کے کمپلیننٹ پولیس افسر اور علاقہ ایس ایچ او کو فوری طور پر معطل کرکے انکوائری شروع کردی ہے جب کہ پولیس نے صحافی کو ضمانت حاصل کرنے میں بھی مدد کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حالیہ دنوں میں صحافیوں کے خلاف ایسے ہتھکنڈوں کا استعمال اور میڈیا گروپس کی غیر قانونی طور بندش سمیت کئی خبریں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں نیوز اینکر اور یوٹیوبر جمیل فاروقی کو بھی چند روز قبل ان کے مبینہ طور پر ریاست مخالف بیانات، ہتکِ عزت اور سرکاری کام کی راہ میں رکاوٹ بننے کے الزمات کے تحت کراچی سے گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگا کر اسلام آباد لایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جمیل فاروقی نے شہبازگِل کو ٹارچر کرنے کا مبینہ جھوٹا الزام اسلام آباد پولیس پر عائد کیا۔ ادھر جمیل فاروقی کا کہنا ہے کہ انہیں دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ عدالت نے جمیل فاروقی کو دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہوا ہے۔
دریں اثنا غریدہ فاروقی، عاصمہ شیرازی اور دیگر ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کو بھی سوشل میڈیا پر ٹرول کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ آزادیٔ اظہار پر پابندیوں کے تحت مختلف ٹی وی چینلز کے خلاف بھی انتقامی کارروائیاں کی شکایات عام رہی ہیں۔
حال ہی میں ملک کے ایک نیوز چینل اے آر وائی نیوز کو پہلے بند کیا گیا، پھر حکام نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور پھر اچانک وزارتِ داخلہ کی جانب سے چینل کی سیکورٹی کلئیرنس واپس لے لی جس کے بعد چینل کا مستقبل داؤپر لگا ہوا ہے۔
یہی نہیں پھر اسی چینل کے ڈائریکٹر نیوز کو بھی رات گئے چھاپہ ماکر گھر سے گرفتار کرلیا گیا۔ اسی دوران سابق وزیر ِاعظم عمران خان کی تقاریر ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
اس سے قبل جولائی میں سینئر صحافی ایاز امیر پر لاہور میں نقاب پوش افراد نے حملہ کیا جب وہ اپنے ٹی وی شو کے بعد گھر جا رہے تھے۔ جولائی ہی میں ضلع خیر پور میں مقامی رپورٹر اشتیاق سوڈھر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مقتول صحافی سندھی زبان میں شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ کے ساتھ وابستہ تھے۔ اس قتل کے ایک روز بعد ہی روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ افتخار احمد کو خیبرپختونخوا میں نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر کے اس وقت ہلاک کر دیا جب وہ کام سے واپس گھر جا رہے تھے۔ جولائی ہی میں یوٹیوب پر لاکھوں فالورز رکھنے والے اینکر عمران ریاض کو بھی پولیس نے ریاست سے بغاوت کے الزام کے تحت گرفتار کرلیا تھا۔
"آزادی صحافت کو زیادہ شدت سے دبایاجارہا ہے"
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ایک دھڑے کے سیکریٹری جنرل رانا عظیم کا کہنا ہے کہ ریاست کسی صورت نہیں چاہتی کہ ملک میں صحافت آزاد ہو۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا عظیم کا کہنا تھا کہ کرپشن، اداروں اور شخصیات کے اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق خبریں، سیاست دانوں کے غیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر 'جھوٹے' مقدمات درج کرانا معمول بن چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات تو عرصۂ دراز سے درج کیے جاتے رہے ہیں لیکن اب ایک نئی روش چل پڑی ہےکہ صحافیوں کو گرفتارکیاجاتا ہے، انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر متاثرہ صحافی کو تذلیل اور مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا یہ سب آزادیٔ صحافت کو زیادہ شدت سے دبانے کے لیے ہو رہا ہے اور اس میں شدت اس لیے آئی ہے کہ پہلے ایسا صرف ایک آدھ فریق کی جانب سے کیا جاتا تھا لیکن اب مختلف ریاستی اور غیر ریاستی ادارے بھی اس میں ملوث ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہ سب غیر قانونی اقدام کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی اور وہ ہر قسم کی سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
صحافیوں کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کے باوجود گرفتاریاں
رانا عظیم نے مزید کہا کہ گزشتہ حکومت کا بڑا کریڈٹ تھا کہ اس نے جرنلسٹس پروٹیکشن بل قومی اسمبلی میں متعارف کرایا جسے قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اور سینیٹ سے بھی اکثریتی ووٹ کی بنا پر منظور کیا گیا تھا۔
اُن کے بقول یہ بل دسمبر 2021 میں صدر کی جانب سے منظوری کے بعد قانون کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود بھی حکومت صحافیوں کے تحفظ کے اس قانون پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بااثر قوتوں نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ جرنلسٹس پروٹیکشن بل اپنی روح کے تحت نافذ ہی نہیں ہوسکا۔انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کی جارہی ہے کہ قانون پرعمل درآمد ممکن بنانے کے لیے حکومت کو مناسب احکامات دیے جائیں۔
اس بل کے تحت حکومت کی جانب سے جرنلسٹس سیفٹی کمیشن کی تشکیل اب تک نہیں کی جاسکی جب کہ صحافیوں کی جانب سے اس بل کی تعریف کے ساتھ اس کی ایک شق نمبر 6اور 20 پر اعتراض بھی کیا جاتا رہا ہے جسے دور نہیں کیا گیا۔
رانا عظیم نے یہ بھی کہا کہ صحافی تنظیمیں ایسے کسی صحافی کی حمایت نہیں کریں گی جو حقائق کو تووڑ مروڑ کر پیش کرے، سچ کو چھپائے اور صحافت کی آڑ میں پروپیگنڈا کرے۔ لیکن اگر کسی کی رپورٹنگ کے بارے میں ریاست یا کسی کو بھی کوئی خدشات ہیں اور یہ دیکھنا کہ کون سی چیز صحافتی زمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں تو اس کا فیصلہ تھانے میں بیٹھا پولیس افسر یا فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے)میں بیٹھا کوئی افسر نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لیے صحافت کے رموز جاننے والے ہی کرسکتے ہیں جس کو اس پیشے کا بذات خود تجربہ ہو۔
تاہم کئی صحافی بھی ملک میں صحافت کے گرتے ہوئے معیار اور غیر ذمہ دارانہ صحافت پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں اور اسے خود ملک میں صحافت کےلیے نقصان دہ قراردے رہے ہیں ۔
دوسری جانب پاکستان کی حکومت ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے جس میں حکومت پر میڈیا کی آزادی کو دبانے کے الزامات عائد کیے جاتے ہوں۔
شہباز شریف حکومت کی وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب یہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ ان کی حکومت صحافیوں پر کسی قسم کے کوئی تشدد اور ان کی آواز دبانے میں ملوث نہیں اور ملک میں آزادی اظہار پر کسی قسم کا کوئی قدغن نہیں ۔
لیکن ملکی اور غیر ملکی صحافتی ادارے ان دعووں کے برعکس یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک میں صحافت پر دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی 2022 کی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان صرف ایک سال میں 12 درجے تنزلی کے ساتھ اس 157ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔