راشدہ خان ایک گھریلو خاتون ہیں جن پر گھر کا بجٹ بنانے اور اس کے مطابق خرچ کرنے کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ برس کرونا وائرس سے ان کے شوہر کا پرنٹنگ پریس کا کام بھی کافی حد تک متاثر ہوا تھا۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ اب ایک بار پھر کاروبار میں بہتری کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔
ان کے بقول دوسری جانب اخراجات کی رفتار رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ خاص طور پر غذائی اشیا کی قیمتیں گزشتہ ایک برس کے دوران تیزی سے بڑھی ہیں جس سے اُن کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
راشدہ خان کا کہنا ہے کہ آٹا، چینی، گھی، تیل، مرغی کا گوشت، دودھ اور خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ حتیٰ کہ مسالہ جات، انڈوں، پھل اور دالوں کی قیمت میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
راشدہ خان واحد خاتون نہیں جو پاکستان میں غذائی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات محسوس کر رہی ہیں۔ بلکہ پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس 12 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ افراطِ زر یعنی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جس میں سب سے زیادہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح رواں برس کے پہلے دو ماہ میں بھی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح بڑھی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں انہی غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جو یہاں پیدا ہوتی ہیں اور محض چند برس قبل تک پاکستان گندم اور گنے جیسی اجناس تو برآمد کر رہا تھا۔
تاہم دالوں میں خود کفیل اور دودھ پیدا کرنے والا اب بھی چوتھا بڑا ملک ہے۔ مگر اس کے باوجود اب ان میں سے بہت سی اشیا بیرونِ ملک سے درآمد کر کے ان پر بھاری زرِ مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے۔
'غذائی اجناس کے درآمدی بل میں اضافہ تشویش کا باعث ہے'
ادارہ شماریات کے کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ آٹھ ماہ میں غذائی اشیا کی درآمد پر پانچ ارب 34 کروڑ ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں۔ جو گزشتہ مالی سال کے آٹھ ماہ کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان میں دودھ سے بنی اشیا گندم، خشک میوے، چائے، مسالہ جات، سویا بین تیل، پام آئل، چینی، دالیں اور دوسری غذائی اشیا شامل ہیں۔
ماہرِ اجناس شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان سے غذائی اشیا کی برآمدات میں نہ صرف کمی واقع ہو رہی ہے۔ بلکہ زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کی اس شعبے میں درآمدات بڑھ رہی ہے جو واقعتاً خطرے کی بات ہے۔
ان کے خیال میں اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو دنیا بھر میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب خام تیل کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان دونوں عوامل نے مل کر ملک میں افراطِ زر کو بڑھایا ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت پر تحقیق کا فقدان
شمس الاسلام نے مزید کہا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت میں ریسرچ کے کام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جو کہ ایک المیہ ہے۔ اس مقصد کے لیے ادارے تو بنائے گئے مگر ان میں اس قدر زیادہ بھرتیاں کر دی گئیں کہ ان ادروں کو ملنے والے فنڈز ایسے اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں کھپ جاتے ہیں۔ ایسے میں تحقیق کہاں سے ہو؟
اُن کے بقول ظاہر ہے جب مقامی سطح پر بیج پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی تو دوسرے ممالک سے ان کے ماحول کے مطابق ہونے والی ریسرچ کے تحت بنائے گئے بیج یہاں کم ہی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔
اسی طرح گنے کی فصل میں بھی سکروز (شکرین یعنی مٹھاس) کی مقدار بڑھانے کے لیے کوئی مناسب ریسرچ نہیں ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں اس وقت پیدا ہونے والے گنے میں سکروز کی مقدار زیادہ سے زیادہ 12 فی صد تک آتی ہے جس کی وجہ سے گنے کی پراسسنگ کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور پھر چینی کی قیمت بھی بڑھتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کا کہنا ہے کہ نہ صرف گندم بلکہ کپاس میں بھی تحقیقات نہ ہونے کی بنا پر اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ پالیسیوں میں خامیوں کے ساتھ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے میدان میں کوئی کام نہ ہونے پر کپاس بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔
یاد رہے کہ کپاس سے تیار کردہ ٹیکسٹائل کی صنعت کا ملکی برآمدات میں 60 فی صد حصہ ہے۔
'کسان پانچ ہزار برس قدیم زرعی طریقہ کار اختیار کیے ہوئے ہیں'
ماہرین کے خیال میں اس وقت کاشت کاروں کو زراعت میں جدید طریقۂ کار اپنانے کی ترغیب اور اس شعبے میں جدید ترین تحقیق کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں مدد کی ضرورت ہے۔ تبھی اس پیداوار کو بڑھا کر قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کو بھی روکا جا سکے گا اور پھر درآمدات بھی کم کرنی پڑیں گی۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ہمارے قابلِ کاشت رقبے میں اضافہ نہیں ہوا۔ جب کہ گندم، گنا، کپاس اور دیگر اجناس کی فی ایکڑ پیداوار عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔
شمس الاسلام کے خیال میں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اچھے بیج استعمال نہیں کر رہے۔ زراعت کے جدید طریقۂ کار کا استعمال نہیں کیا جا رہا اور ہمارا کسان آج بھی پانچ ہزار برس پرانا طریقہ کار ہی استعمال کر رہا ہے۔
ان کے مطابق اسی طرح زمین کی لیزر لیولنگ نہیں کی جاتی۔ ملک میں ترقی پسند کسانوں کی تعداد بے حد کم ہے۔ اس طرح روایتی طریقۂ کار اپنانے سے کسانوں کی پیداوار کم ہے۔
کسانوں کو زیادہ پیداوار کے لیے ترغیب نہ ہونے کے برابر
پاکستان 2008 تک چنے اور دالیں برآمد کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔ تاہم ماہرین کے مطابق جب عالمی منڈیوں میں دالوں اور چنے کا بحران آیا تو پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک نے ان کی برآمد پر پابندی عائد کر دی اور یہ صرف مقامی منڈیوں میں فروخت ہونے لگے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کا اثر یہ ہوا کہ بارانی علاقوں میں پیداوار بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی اور پھر حکومت نے اس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو کوئی ترغیب یا مراعات نہیں دیں۔ اس طرح اب یہ بھی باہر سے منگوانا پڑ رہی ہیں۔
'حکومت اجناس منگوانے کے بجائے یہ کام پرائیویٹ سیکٹر کو سونپے'
شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ اس کا حل حکومت کی بہتر ریگولیشن میں پوشیدہ ہے۔ حکومت گندم، گنا اور کپاس خود باہر سے منگوانے کے بجائے اسے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرے اور خود یہ دیکھے کہ باہر سے منگوائی گئی اشیا کی کیا مناسب قیمت رکھی جا سکتی ہے۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ قیمتوں کے تعین کے نظام کو مزید بہتر بنانے اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں اب قیمتوں کو ڈکٹیٹ نہیں کرایا جاتا۔ بلکہ حکومتیں اپنی پالیسی کے ذریعے مارکیٹ میں مقابلے کی فضا قائم کرکے صارفین کو بہتر قیمت دلاتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات
ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ سردیوں کا موسم کم ہونے اور گرمیوں کا موسم زیادہ ہونے سے فصلوں کے پھول وقت سے پہلے تیار ہو رہے ہیں یا پھر فصل بننے سے قبل ہی جل جاتے ہیں جس سے فصل مطلوبہ مقدار میں نہیں مل پاتی۔
اُن کے بقول اسی طرح شدید بارشوں اور سیلاب سے بھی پاکستان میں فصلیں بے حد متاثر ہوئی ہیں۔ جیسے کپاس کی پیداوار سندھ کے ضلع عمر کوٹ اور میرپور خاص میں 80 فی صد متاثر ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب ملک بھر میں 27 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ پاکستان ایک عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سےشدید متاثر ہونے والے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کم ہونے کے پیچھے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی ہیں۔
نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق ملک میں خوراک کے طور پر استعمال ہونے والے اناج اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے جامع فوڈ سیکیورٹی پالیسی پر کام جاری ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد غربت، بھوک اور غذائیت کی کمی کا خاتمہ ہے۔ اس کے علاوہ پائیدار غذائی نظام کے فروغ کے لیے فصلوں، مویشیوں اور ماہی گیری کی صنعتوں میں اوسطاً چار فی صد کی شرح نمو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزارت کی فوڈ سیکیورٹی پالیسی کا تیسرا مقصد زراعت میں زیادہ پیداوار، منافع بخش اور آب و ہوا کے مطابق مسابقت کا ماحول پیدا کرنا بتایا جاتا ہے جس کے لیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔
مستقبل کے لیے فکر مند کرنے والے سوالات
اس ساری صورتِ حال میں راشدہ خان جیسی بہت سی خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی غذائی ضروریات کو کس طرح پورا کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہیں یہ خدشات بھی درپیش ہیں کہ اگر طلب و رسد میں فرق، ذخیرہ اندوزی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھے اور قیمتیں مزید اوپر گئیں تو ان کے باقی اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔
مستقبل کے لیے فکر مند کرنے کے ان سوالات کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔