پاکستان میں اتوار کو وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دینے والے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنا استعفیٰ واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے اتحادی رہ کر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کو باور کروایا ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔
پیر کو وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کی سربراہی میں تحریک انصاف کے وفد نے کراچی میں ایم کیو ایم کے بہادر آباد میں واقع مرکز کا دورہ کیا جس میں حکومت کی اتحادی جماعت کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم تحریک انصاف کا وفد ایم کیو ایم کے کنوینر کو وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو واپس لینے پر قائل نہیں کرسکا جس کا اعلان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی اور یہ ملاقات تھی مذاکرات نہیں جس میں کئی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
خالد مقبول صدیقی نے واضح کیا کہ ان کی جماعت حکومت کا ساتھ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ لیکن وہ کابینہ میں بیٹھنا بے سود سمجھتے ہیں اس لئے وہاں نہیں جائیں گے۔
دوسری جانب اسد عمر کے مطابق تحریک انصاف کی یہ خواہش ہے کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بدستور کابینہ کا حصہ رہیں۔ اس معاملے پر وزیر اعظم سے بھی بات چیت ہوئی ہے اور آگے بھی اس پر بات ہو گی۔ تاہم یہ ملاقات ایم کیو ایم کے ساتھ پہلے ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہی تھا۔
اسد عمر نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کراچی میں رہنے والوں کو ان کا حق دہائیوں سے نہیں ملا ہے۔ حکومت اور ایم کیو ایم وہ حق دلانے کی مشترکہ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس پر اتفاق پایا گیا کہ دونوں جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان فروری میں بعض منصوبوں کا افتتاح بھی کریں گے۔ جب کہ شہر کے بعض میگا منصوبوں پر بھی جلد کام شروع ہو گا۔
اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کراچی میں اعلان کردہ 162 ارب روپے سے زیادہ کے منصوبے مکمل کرے گی، جن میں اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبہ کو مکمل کرنے کے لئے وفاقی حکومت اپنا نصف حصہ دے گی۔ اس کے ساتھ ٹرانسپورٹ میں تین مختلف منصوبوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ریلوے کا فریٹ کوریڈور، لیاری ایکسپریس وے اور ناردرن بائی پاس کو چوڑا کرنا شامل ہیں۔
کیا ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہونے جا رہی ہے؟
اتوار کے روز ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وفاقی کابینہ سے استعفے کی خبر کے بعد کئی تجزیہ کاروں نے یہ رائے دینا بھی شروع کر دی کہ ایم کیو ایم دوسرے مرحلے میں وفاق میں تحریک انصاف کے اتحادی کے طور پر بھی ہاتھ کھینچ لے گی اور اس سے حکومتی بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ لیکن تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کے بقول عمران خان کی حکومت کو فی الحال ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ایم کیو ایم حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی اور اس کی وجہ پاکستان کی سیاست کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں۔
اسی سوال پر ایک اور تجزیہ کار نذیر لغاری کا کہناہے کہ آج کی ایم کیو ایم ماضی کی ایم کیو ایم سے مختلف ہے۔ آج کی ایم کیو ایم کے مسائل، چیلنجز اور مواقع ماضی سے مختلف ہیں۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے سامنے مسائل بھی تھے اور وہ خود بھی ایک مسئلہ تھی۔ لیکن ماضی کی نسبت اب وہ ایک بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اور اب وہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ تو ہے لیکن حکومت میں نہیں۔
کیا ڈاکٹر فروغ نسیم ایم کیو ایم کی نمائندگی نہیں کرتے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے کابینہ سے استعفے سے یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا انہی کی جماعت کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم بھی استعفیٰ دیں گے؟ لیکن ان کی جانب سے اب تک استعفیٰ دینے کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی یہ واضح کر چکے ہیں کہ بیرسٹر فروغ نسیم ایم کیو ایم کے کوٹے پر وزیر نہیں بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم تواتر سے تحریک انصاف سے مزید ایک وزارت دینے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر فروغ نسیم کو ان کی جماعت نے نامزد نہیں کیا تو پھر وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس سوال پر نذیر لغاری کے مطابق فروغ نسیم کو "جہاں سے بھیجا گیا تھا" وہ ان کے آدمی ہیں اور ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔ ایم کیو ایم نے انہیں قبول کیا تھا، سینیٹر بنایا تھا لیکن وہ جہاں سے آئے تھے انہی کے ساتھ رہیں گے۔
ڈاکٹر توصیف کے مطابق اگرچہ ایم کیو ایم کے سربراہ کابینہ میں بیٹھنا سود مند نہیں سمجھتے، بیرسٹر فروغ نسیم کا کابینہ میں بیٹھنا کیوں ضروری ہے؟ اس کی وضاحت وزیر قانون خود ہی کر سکتے ہیں کہ وہ وفاقی کابینہ میں کن قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں یہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں۔ پاکستان میں مصر کی طرح کے جمہوری ماڈل میں یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں۔
کیا ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ بننے کی خواہش مند ہے؟
30 دسمبر کو بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کی قیادت کو یہ کھلی پیشکش کی تھی کہ اگر وہ عمران خان کو گھر بھیجیں، تحریک انصاف سے وفاق میں اتحاد ختم کر لیں تو انہیں سندھ کی صوبائی کابینہ میں نمائندگی دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت سندھ بالخصوص کراچی کی ترقی کے لئے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کے سربراہ نے اتوار کے روز اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ ان کے کابینہ سے مستعفی ہونے کو اس پیشکش کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر توصیف احمد کے بقول ایم کیو ایم کی قیادت اور ان کے ووٹرز کو پیپلز پارٹی سے مایوسی ہی ملی ہے، عمران خان کی حکومت مستحکم ہے۔
لیکن نذیر لغاری کے بقول ایم کیو ایم اس بات کا جائزہ تو لے گی کہ اس آفر کا انہیں کس قدر فائدہ ہو گا۔ یہ بات طے ہے کہ ایم کیو ایم کا فائدہ یا نقصان ماضی جیسا نہیں ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم کی سیاست مختلف تھی جب کہ پیپلز پارٹی کا ماضی بھی بہت مختلف تھا۔ اب دونوں جماعتوں کو قریب آنے کے لئے از سر نو غور کرنا ہو گا۔ لیکن بہت سی چیزیں آگے جا کر مزید واضح ہوں گی۔ تاہم ان کے خیال میں ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت میں شمولیت خود پیپلز پارٹی کے لئے ہی مفید ثابت نہیں ہو گی۔