نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پ ٹی آئی) کے کئی رہنما پارٹی چھوڑنے کے علاوہ سیاست سے بھی کنارہ کش ہو رہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا سے تاحال کسی قابلِ ذکر رہنما نے پارٹی سے راہیں جدا نہیں کی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے رہنماؤں کی خاموشی یا تو کسی مصلحت کے تحت ہے یا وہ ابھی بھی عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔
نو مئی کے واقعات کے بعد صوبے میں لگ بھگ 10 برس تک اقتدار میں رہنے والی جماعت کا کوئی باضابطہ اجلاس ہوا ہے اور نہ ہی پارٹی رہنماؤں نے کوئی مشاورت کی ہے۔
پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی جانب سے حالیہ گرفتاریوں اور مقدمات پر کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبے کے سابق وزرائے اعلٰی پرویز خٹک ،محمود خان، سابق حکومتی عہدے داران شوکت یوسفزئی، بیرسٹر سیف سمیت خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے وفاقی اور صوبائی وزرا نے بھی تاحال مستعفی ہونے یا سیاست سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ابھی تک خیبرپختونخوا سے جن افراد نے پارٹی سے راستے جدا کیے ہیں ان میں سابق رُکن قومی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی، خاتون رُکنِ اسمبلی نادیہ شیر، صوابی سے سابق رُکن قومی اسمبلی عثمان ترکئی، شمالی وزیرستان سے صوبائی وزیر اقبال وزیر، کرک سے سابق رُکن اسمبلی ملک قاسم اور سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان کے مشیر اجمل خان وزیر شامل ہیں۔
’معنی خیز خاموشی‘
موجودہ حالات میں بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے رہنما پارٹی کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں بلکہ خاموش ہیں۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی صفوں میں معنی خیز خاموشی ہے۔ ان کے بقول ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو صوبے میں رعایت دی جارہی ہے جس کے داخلی کے علاوہ کچھ خارجی اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے منسلک زیادہ تر نوجوانوں کو اب احساس ہوچکا ہے کہ پچھلے دس برسوں کے دوران اس جماعت کی کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی ہے اور یہ نوجوان اب سابقہ پارٹیوں کے طرف واپس جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر سابق ممبران پارلیمنٹ ان جماعتوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو ان کو ٹکٹ بھی دیں اور اور کامیاب بھی کرائیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی یا اختلاف رکھنے والی جماعتیں کسی بھی طور اپنے مخلص اور نظریاتی کارکنوں کو مایوس یا خفا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
پشاور کےسینئر صحافیوں عرفان خان اور شاہد حمید کا کہنا کے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کا دارومدار سابق وزیر اعلی اور سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک پر ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں شاہد حمید نے کہا کہ پرویز خٹک دیکھیں گے کہ انہیں کہاں پذیرائی مل سکتی ہے اور اس سلسلے میں ان کی نظریں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں پر ہے۔
عرفان خان کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر جہانگیر ترین بھی ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کے زیادہ تر رہنما اپنا سیاسی مستقبل محفوظ رکھنے کے لیے ایک گروپ کے شکل میں نہ صرف متحد رہیں گے بلکہ متفقہ طور پر فیصلہ بھی کریں گے ۔
شاہد حمید کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف میں عمران خان کے بعد اگر سب مضبوط پوزیشن کسی کی ہے تو وہ پرویز خٹک ہیں۔اس وقت انہیں آٹھ ممبران قومی اور 22 ممبران صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
SEE ALSO: خان کا گھر، ناراض جنرلز اور تفریق کا شکار پاکستاناس رپورٹ کے لیے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے کا بنیادی سبب صوبے میں عمران خان کی عوامی مقبولیت ہے۔
گرفتاریاں اور مقدمات
پولیس کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں پرتشدد مظاہروں کے الزام میں کل 1951 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ نو اور دس مئی کو ہونے والے واقعات اور پر تشدد مظاہروں سے متعلق 100 مقدمات درج کیے گئے۔
گرفتار ہونے والے افراد میں 507 کا تعلق پشاور ریجن سے، 578 کا مردان ریجن سے، 317 کا تعلق مالاکنڈ ریجن سے اور 170 افراد کا تعلق ہزارہ ریجن سے ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونےو الے افراد میں 224 کوہاٹ ریجن ، 148 بنوں ریجن اور صرف سات ڈی آئی خان ریجن سے تعلق رکھتے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پرتشدد مظاہروں میں ملوث 50 سے زیادہ مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہیں جن میں پانچ پشاور اور سات مردان سے گرفتار کیے گئے ہیں۔ لوئر دیر میں گرفتار ہونے والوں میں چار سابق ممبران صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں۔
مردان اور صوابی میں کیپٹن کرنل شیر خان اور دیگر فوجیوں کے مجسموں کی توڑ پھوڑ کرنے والے سات سے زیادہ مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہیں۔
گرفتاریاں تیز کرنے کا فیصلہ
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر خیبر پختونخوا میں نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی بنیاد پر جلد گرفتاری کے لیےجمعے کو پشاور میں اجلاس ہوا۔
سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں پولیس و عسکری اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی اور گرفتاریوں کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے اور مشترکہ کارروائیاں تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ مطلوب افراد کی جلد گرفتاری کےلیے پولیس و فورسز کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ نو اور 10 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے مبینہ احکامات دینے پر مقدمات میں نامزد سابق صوبائی وزرا اورممبران اسمبلی روپوش ہیں۔
سرکاری طور پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق درج شدہ ایف آئی آر میں نامزد تیمور سلیم جھگڑا، کامران بنگش، شوکت علی، ارباب شیرعلی، فضل الٰہی، ملک واجدمحمد آصف، عارف یوسف، یونس ظہیر، میناخان آفریدی و دیگر کے نام شامل ہیں اور ان کی جلد گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
اجلاس میں پرتشدد مظاہرین کو گرفتاری سے بچانے والے افراد کےخلاف کارروائی پر بھی غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
پشاور ہائی کورٹ نے چند روز قبل ایک جیسی 150 درخواستیں منظور کرتے ہوئے 3 ایم پی او کے تحت گرفتاریوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ تحریکِ انصاف پرتشدد واقعات میں اپنے رہنماؤں اور کارکنان کے ملوث ہونے کی تردید کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی تھری ایم پی او کے تحت ہونے والی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔