رانیل وکرما سنگھے سری لنکا کے آٹھویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ پارلیمان میں تین امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ قائم مقام صدر نے حاصل کیے۔
بدھ کو پارلیمنٹ کے 225 ارکان نے نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ میں حصہ لیا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق رانیل وکرما سنگھے نے 134 ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدِ مقابل ڈلاس الہاپروما نے 84 اور تیسرے امیدوار انورا کمارا نے صرف تین ووٹ حاصل کیے۔
بعض قانون ساز اب یہ امید ظاہر کر رہے ہیں کہ رانیل وکرما سنگھے ملک کو بد ترین معاشی بحران اور سیاسی انتشار کی صورتِ حال سے نکال لیں گے۔ دوسری جانب عوامی سطح پر ان کے حوالے سے مخالفت موجود ہے۔
بعض رپورٹس کے مطابق رانیل وکرما سنگھے کے صدر بننے کے بعد ایک بار پھر ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے کیوں کہ سابق وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے کے مئی میں مستعفی ہونے کے بعد سابق صدر گوتابایا راجا پکسے نے پارلیمان میں ایک نشست رکھنے والے رانیل وکرما سنگھے کے حکومت اور کابینہ بنانے کی منظوری دی تھی۔
ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھی احتجاج ختم نہیں ہو سکا تھا اور مظاہرین صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر اور گھروں میں داخل ہو گئے تھے۔
احتجاج میں شدت آنے کے بعد گزشتہ ہفتے سابق صدر گوتابایا راجا پکسے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ گوتابایا راجا پکسے پہلے مالدیپ اور پھر سنگاپور پہنچے تھے۔ انہوں نے امریکہ جانے کی بھی کوشش کی تھی تاہم ان کو امریکہ کا ویزا نہیں مل سکا تھا۔ انہوں نے صدر بننے سے قبل امریکہ کی شہریت ترک کی تھی۔
گوتابایا راجا پکسے کے ملک سے فرار ہونے کے بعد وہ گزشتہ ہفتے جمعے کو صدارت سے مستعفی ہو گئے تھے، جس کے بعد وزیرِ اعظم رانیل وکرما سنگھے قائم مقام صدر بن گئے تھے۔
ان کے قائم مقام صدر بننے کے بعد پارلیمان کے اسپیکر مہندا یاپا نے اعلان کیا تھا کہ ایک ہفتے میں نئے صدر کا انتخاب ہو جائے گا۔ پارلیمان نے ہفتے سے ہی نئے کے انتخاب کا عمل شروع کر دیا تھا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق بدھ کو پارلیمنٹ کے سیکریٹری جنرل نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ رانیل وکرما سنگھے ملک کے آئین کے تحت آٹھویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹس کے مطابق ملک میں احتجاج کرنے والے مظاہرین اور پارلیمان میں حزبِ اختلاف کو دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار ڈلاس الہاپروما زیادہ قابلِ قبول تھے۔ ان کا تعلق بھی حکومتی جماعت سے ہی ہے البتہ وہ حکومت کے کسی اعلیٰ عہدے پر رہنے کا تجربہ بالکل نہیں رکھتے۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں صدر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملک کے وزیرِ اعظم کا تقرر کرے۔ بعد ازاں اس تقرر کی منظوری پارلیمان سے بھی لی جاتی ہے اور وزیرِ اعظم حکومت چلانے کے لیے کابینہ تشکیل دیتا ہے۔
معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں پیٹرول کی رسد شدید متاثر ہے اور پیٹرول کی بچت کے لیے حکومت نے غیر ضروری دفاتر اور اسکولوں میں تعلیمی سلسلے کو بھی بند کر رکھا ہے۔
رواں برس اپریل میں سری لنکا پر غیر ملکی قرضہ 51 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کیے تھے تاہم اس میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔
سری لنکا کو پیٹرول کے ساتھ ساتھ گیس، خوراک اور ادویات کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ایندھن کے حصول کے لیے شہریوں کو طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ صورتِ حال گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔
عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال نے سری لنکا کی سیاحت کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا جب کہ بیرونِ ملک سے آنے والے زرِ مبادلہ میں کمی اور کھادوں میں استعمال ہونے والے کیمیکل پر پابندی نے بھی ملک کی معیشت کو دھچکا دیا تھا۔
سری لنکا میں جون میں مہنگائی کی شرح 54 اعشاریہ چھ فی صد ریکارڈ کی گئی تھی اور مرکزی بینک نے خبردار کیا تھا کہ آئندہ چند ماہ کے دوران یہ 70 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔