ناروے کے ایک رکنِ پارلیمنٹ نے خفیہ سرکاری دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کرکے شہرت حاصل کرنے والی ویب سائٹ "وکی لیکس" کو 2011 کے نوبیل امن انعام کیلیے نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نارویجن قانون دان سینور والن نے کہا ہے کہ خفیہ دستاویزات افشاء کرکے 'وکی لیکس' اکیسویں صدی میں اظہارِ رائے کی آزادی کی سب سے بڑی نقیب ثابت ہوئی ہے۔
بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں والن کا کہنا تھا کہ کرپشن، انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم سے متعلق انکشافات کرکے 'وکی لیکس' نے خود کو امن کے نوبیل انعام کا حقدار ٹہرالیا ہے۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سابق کمپیوٹر ہیکر جولین اسانج کی قائم کردہ ویب سائٹ 'وکی لیکس' کی جانب سے اب تک انٹرنیٹ پر کئی ممالک کے خفیہ دستاویزات عوامی مطالعے کیلیے جاری کیے جاچکے ہیں۔ ان دستاویزات میں لاکھوں خفیہ امریکی سفارتی کیبلز، اور امریکی دفاعی اداروں کی جانب سے تیار کردہ عراق اور افغانستان کی جنگ سے متعلق انتہائی خفیہ دستاویزات بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر کے ممالک کے اراکینِ پارلیمان، پولیٹیکل سائنس اور قانون کے پروفیسرز اور ماضی کے نوبیل انعام یافتہ حضرات کو ہر سال دیے جانے والے امن کے نوبیل انعام کیلیے نامزدگیوں کا اختیار حاصل ہے۔