غیرقانونی رقوم کی ترسیل اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس رواں ہفتے ہونے جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ اس بات کافیصلہ بھی کیا جائے گا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جائے یا برقرار رکھا جائے۔
پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں تیسری بار شامل کیا گیا تھا۔ اس وقت ادارے کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کارروائی میں ناکام رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے 12 روزہ معائنے کے بعد پاکستان کے ایکشن پلان میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ بعد ازاں مارچ 2019 میں ادارے کی شرائط پورا کرنے کے لیے کالعدم تنظیموں کو ہائی رسک قرار دیا گیا تھا۔
اسی اثنا میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دیے گئے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے قوانین متعارف کرائے، بعض قوانین میں بنیادی تبدیلیاں کیں، اور قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ساتھ ایسے مقدمات عدالتوں میں بھیجے جن میں ملزمان پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات تھے۔
پاکستان میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور دیگر کو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے مقدمات میں ہی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
مزید پڑھیے پاکستان: ایئرپورٹ پر مسافرغیر ملکی کرنسی اور زیورات کی تفصیلات جمع کرانے کے پابند، مقصد کیا ہے؟البتہ رواں سال جون میں برلن میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے آخری اجلاس میں ادارے کا مؤقف تھا کہ پاکستان نے اپنے دو ایکشن پلانز پر عمل درآمد کافی حد تک مکمل کرلیا ہے، جن میں 34 نکات شامل تھے۔
ایف اے ٹی ایف نے اس بات کی تصدیق کے لیے کہ پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور انسداد منی لانڈرنگ پر مکمل عمل درآمد ہو رہا ہے، ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کے آن سائٹ دورے کی بھی ضمانت دی گئی تھی۔
بعد ازاں ٹیم نے اگست کے آخری ہفتے میں پاکستان کا دورہ کیا اور اسٹیٹ بینک، وزارتِ خزانہ سمیت پاکستان کے مالیاتی نظام سے متعلق حکام سے ملاقاتیں بھی کیں، جس کے بعد ٹیم نے اپنی رپورٹ تیار کی ہے جو 20 اکتوبر سے شروع ہونے والے پلینری اجلاس میں رکھی جائے گی۔
'گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن ہیں'
ماہر اقتصادیات اور تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اس بات کے 80 فی صد روشن امکانات ہیں کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا انحصار تین چیزوں پرہے۔ ایک قانون سازی، دوسرا قوانین پر عمل درآمد کے لیےانفراسٹرکچر اور اہل افرادی قوت کا ہونا اور تیسرا سزاؤں کی شرح ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلی دو چیزوں پر تو پاکستان نے مکمل عمل درآمد کرلیا ہے لیکن اصل مسئلہ سزاؤں کی شرح کم ہونے کا ہے۔ حکام کی جانب سےایف اے ٹی ایف حکام کو بھیجے گئے اعداد و شمار کے مطابق منی لانڈرنگ کے دو ہزار 420 کیسز کی تحقیقات کی گئیں، جن میں سے 354 کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور ایک مقدمے میں الزام ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی۔ اسی طرح دہشت گردی کی مالی معاونت کے 228 مقدمات دائر کیےگئے جب کہ 58 لوگوں کو سزائیں ملیں۔
ان کے بقول اس طرح خدشہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف سزاؤں میں کمی کے باعث پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے معاملے کو مزید لٹکا نہ دے۔
ڈٖاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے بشمول ایف اے ٹی ایف کا اسٹاف لیول بہت ہی پیشہ ورانہ طور پر کام کرتا ہے اور اس پر کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔اس کے بعد وہ اپنی رپورٹس بنا کر اعلیٰ حکام کو پیش کرتے ہیں۔ تاہم اعلیٰ حکام رپورٹس پر فیصلہ کرتے وقت یقینی طور پر سیاسی اثرات کے زیرِاثر ہوتے ہیں۔
'خدشات اب بھی موجود ہیں'
دوسری جانب یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط ماننے کےبعد پاکستان میں ادارے کی ٹیم نے آن سائٹ جائزہ بھی کرلیا ہے۔ تاہم ابھی اس کی رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔لہٰذا اس بات کے خدشات ہیں کہ پاکستان میں پائی جانے والی سیاسی بےچینی اور افراتفری کے باعث وہ شاید اب بھی مکمل طور پر مطمئن نہ ہوپائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے خیال میں اس معاملے میں پاکستان کی کمزور سفارت کاری بھی اہم ہے۔ امریکہ کے صدر کا تازہ بیان بتا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کوئی گرم جوشی پر مبنی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیکنیکی اعتبار سے جانچ پڑتال اپنی جگہ لیکن سب کو معلوم ہے کہ ایشیا پیسیفک گروپ میں موجود رکن ممالک کے اپنے اپنے علاقائی اور عالمی مفادات ہیں۔ ان ممالک میں چین، جاپان، ملائیشیاکے علاوہ بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔تو ظاہر ہے کہ ایسے کسی بھی فیصلے میں ان طاقتوں کے مفادات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس سمیت دیگر لیکس میں آنے والے سینکڑوں شہریوں کے خلاف کسی قسم کی تحقیقات کے بجائے حکومتِ پاکستان کی جانب سے کئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز دی گئیں۔ جس سےان لوگوں کو بھی فائدہ حاصل ہوا جو سیاسی پس منظر یا کوئی سرکاری عہدہ بھی رکھتے تھے۔ یوں ایسے لوگوں کی نشاندہی کے باوجود انہیں اپنا کالادھن سفید کرنے میں مدد فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ان اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستوں کو بھی قانونی تحفظ فراہم کرکے خفیہ رکھا گیا جو آئین کے آرٹیکل 19 اے کی خلاف ورزی بھی ہے۔ایسے اقدامات کی عالمی ماہرین غور و فکر سے نگرانی کررہے ہوتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تواس سے پاکستان کا تشخص بحال کرنے میں مدد ملے گی۔مزید یہ گرے لسٹنگ کسی بھی ملک کے لیے مالی لین دین مشکل بناتی ہے اور کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ کرتی ہے۔ البتہ اس لسٹ سے نکلنے سے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد ملے گی۔