عطیہ دہندگان اور امدادی اداروں نے اس موسم سرما میں تقریباً دو کروڑ ضرورت مندافغانوں کی مدد کرکے افغانستان میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت اور قحط کی صورتحال کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس ملک کو اب بھی پریشان کن اقتصادی خدشات لاحق ہیں۔
ا قوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل کی نمائندہ خصوصی اورافغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ ڈیبورا لیونس نے بدھ کو سیکورٹی کونسل کو بتایا کہ میرا خیال ہےکہ سردیوں کا موسم ختم ہونے پر قحط اور بڑے پیمانے پر غذائی قلت کا بدترین خوف شاید ٹل جائے ۔
امدادی ایجنسیوں نے سرد موسم کے دوران مارچ تک بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اگست دو ہزار اکیس میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خشکی سے گھرا یہ ملک ایک بڑے انسانی بحران سے دوچار ہے اور اس کی معیشت تقریباً تباہ ہوگئی ہے۔
منگل کو عالمی بینک نےاعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں انسانی امداد کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور بین الااقوامی این جی اوز کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقوم فراہم کرےگا۔
لیونس نے کہا کہ " آئیے حقیقت پسند بنیں۔ ہم نے جو کچھ کیا وہ صرف تھوڑی سی مہلت کے لیے تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ کاروبار ختم ہونے سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور زیادہ سے زیادہ افغان عوام کے خط غربت سے نیچے آنے سے افغانستان کی معیشت تباہی کےدہانے پر پہنچ چکی ہے۔
SEE ALSO: عالمی بینک نے منجمد افغان ٹرسٹ فنڈ میں سے ایک ارب ڈالر کے استعمال کی اجازت دے دیانھوں نے کہا کہ" یہ ضروری ہے کہ ہم آج سے چھ ماہ بعد خود کو اس مقام پر نہ پائیں جس کا ہمیں چھ ماہ قبل سامنا تھا، جس میں لاکھوں افغان ایک اور سردموسم کا سامنا کررہے ہوں گے اور ہمارے اختیار میں صرف مہنگا اور غیر پائیدار انسانی امداد کا ذریعہ ہی رہ جائے گا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے دو ہزار بائیس میں افغانستان میں دو کروڑ بیس لاکھ افراد کو ضروری امداد کی فراہمی کے لیے چار ارب چالیس کروڑ ڈالر کے عطیات کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کی مالیاتی ٹریکنک سروس کے مطابق اس ہفتے تک اپیل کیے گئے فنڈ کا تیرہ فیصد سے بھی کم جمع ہوئے ہیں۔
طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا:
امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو اپنی معیشت کی تعمیر نو اور مستقبل کے انسانی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے مالی استحکام کی راہ درکار ہے ، لیکن اس طرح کی کوششیں طالبان رہنماوں اور ان کی ڈی فیکٹو حکومت پر اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایلچی نے کہا کہ " میں یہ واضح کردوں کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہم حکام کے ساتھ کام کیے بغیر افغان عوام کی حقیقی معنوں میں مدد کرسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہوگا لیکن یہ مستقبل کے لیے ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کےبعد سے مسلح وارداتوں اور شہریوں کی ہلاکتوں میں واضح کمی ہوئی ہے لیکن انسانی حقوق کی بدتر ہوتی صورتحال پر تشویش بڑھ رہی ہے۔
افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے امریکی خصوصی ایلچی رینا امیری نے بدھ کو واشنگٹن میں سنٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی ایک تقریب میں کہا کہ " ہم نہیں کہہ سکتے کہ انصاف کے بغیر امن ہوگا"۔ افغانستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانی صورتحال، سیاسی صورتحال اور انسانی حقوق کی صورتحال، ان کے بغیر آپ سیاسی استحکام حاصل نہیں کرسکتے ۔
اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے افغانستان لیونس نے سلامتی کونسل کے تمام 15 اراکین سے یو این اے ایم اے کے لیے ایک مضبوط سیاسی منڈیٹ کی تجدید کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے عالمی ادارے کےساتھ تعلقات ایک کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔