کرونا وبا کی بندشوں کے بعد معاشی سرگرمیوں کی بحالی سے امریکہ میں روزگار کے مواقعوں کی بہتات ہے لیکن شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ بے روزگار افراد ملازمت کے حصول کے لیے پہلے جیسی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے۔
کئی ایسے افراد جو برسرِ روزگار نہیں وہ بھی پہلے سے زیادہ تنخواہوں کے خواہش مند ہیں یا کرونا وبا سے متاثر ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر عوامی خدمات کی کمپنیوں میں کام کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
یہ دونوں رجحانات کس طرح ایک دوسرے کو متوازن کرتے ہیں، آئندہ مہینوں میں خالی آسامیوں پر بھرتیوں سے اس کی رفتار کا تعین ہوگا۔
رواں برس جون میں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح مئی کے مقابلے میں کم ہونے کی توقع کی جارہی تھی۔ مئی میں یہ شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فی صد تھی جب کہ جون میں یہ پانچ اعشاریہ سات فی صدر رہی۔
کام بہت اور لوگ نہیں
لیبر ڈپارٹمنٹ کے مطابق رواں برس اپریل میں امریکہ میں ملازمت کے لیے خالی آسامیوں کی تعداد 93 لاکھ تک پہنچ گئی تھی جو کہ گزشتہ بیس برسوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ایمپلائمنٹ ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کے اعلانات میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ملازمین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر ریستورانوں، سیاحتی اور تفریحی مقامات کے آجروں کے مابین مقابلہ بڑھتا جارہا ہے۔ آجر زائد اجرتوں اور بونس سمیت دیگر مراعات کے ساتھ اوقاتِ کار میں بھی سہولت کی پیش کش کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس کے دوران بونس کے وعدوں کے ساتھ دی جانی والے ملازمتوں کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدم دلچسپی کیوں؟
ملازمتوں کے لیے امیدواروں کی عدم دلچسپی کے مختلف اسباب ہیں۔ کئی امریکیوں کو پرہجوم مقامات پر کام کرنے میں صحت سے متعلق تحفظات لاحق ہیں۔ تقریباً 15 لاکھ افراد جن میں خواتین کی اکثریت ہے، صرف اس لیے ملازمت نہیں کر رہے یا اس کی تلاش میں نہیں کہ انہیں گھر پر رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے کیوں کہ وبا کے باعث اسکول اور ڈے کیئر سینٹرز بند پڑے ہیں۔
دوسری جانب اندازاً 26 لاکھ زیادہ عمر کے ورکرز ہیں۔ جنھوں نے اسٹاک میں منافع اور گھروں کی بڑھتی قیمتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔
مرکزی حکومت عارضی طور پر بے روزگاروں کو ہفتہ وار 300 ڈالر دے رہی ہے۔ ریاستوں کی جانب سے بے روزگاروں کی الگ سے مالی مدد کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ملازمت کا انتخاب کرتے ہوئے زیادہ چھان پھٹک کرنے لگے ہیں۔
امریکہ کی نصف سے زائد ریاستیں جولائی کے اختتام تک بے روزگاروں کو دی جانے والی مالی مدد کا سلسلہ ختم کررہی ہیں۔ اس اقدام کے حامی اسے بے روزگاروں کو تلاشِ روزگار پر آمادہ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
سرمایہ کاری کے ادارے 'گولڈ مین ساکز' کے اقتصادی ماہرین نے حساب لگایا گیا ہے کہ جو ریاستیں مرکزی حکومت کی جانب سے بے روزگاروں کو دی جانے والی ادائیگیوں کا سلسلہ جلدی روک رہی ہیں وہاں ریاستوں کی مالی مدد حاصل کرنے والوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس تعداد میں کمی کی رفتار ان ریاستوں سے زیادہ ہے جہاں مرکزی حکومت کی جانب سے ہفتہ وار 300 ڈالر کی ادائیگی ستمبر تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ بے روزگاری کی صورت میں ملنے والے مالی فوائد میں کٹوتیوں سے آنے والے مہینوں میں آسامیوں پر بھرتی میں اضافہ ہوگا۔
اجرت بھی ایک وجہ
جمعرات کو حکومت کے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے بے روزگاری کے لیے مالی مدد کے لیے رجوع کرنے والوں کی تعداد تین لاکھ 64 ہزار رہی جو وبا کے آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے آثار بھی نمایاں ہیں کہ لوگ اپنے کام اور ذاتی زندگی کے بارے میں ازسرِ نو سوچ رہے ہیں اور اپنی پرانی ملازمتوں میں دلچسپی کھو چکے ہیں۔ ان میں روزگار کی تبدیلی پر بالخصوص ایسے افراد سوچ رہے ہیں جنھیں کم اجرت پر کام کرنا پڑتا تھا۔
اپریل میں امریکیوں کی ملازمت چھوڑنے کی شرح گزشتہ بیس برس میں سب سے زیاد رہی ہے۔
ریستوارنوں، ہوٹلوں، کیسینو اور امیوزمنٹ پارکس وغیرہ میں ملازمت کرنے والے چھ فی صد افراد نے اپریل میں نوکریوں کو خیرباد کہا۔ دیگر شعبوں کے مقابلے میں ملازمت چھوڑنے والوں کی یہ شرح دگنی ہے۔
زائد اجرت کے لیے ملازمت چھوڑنے والوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے آجروں کو بھی عملے کی تعداد مطلوبہ حد تک برقرار رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
طلب و رسد میں غیر معمولی فرق
جون میں پیداواری شعبے میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق فیکٹریوں میں مزدوروں کی قلت کی عام شکایت پائی گئی ہیں۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ ’اجرتی محرکات‘ کی وجہ سے انہیں ملازمت ترک کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سامنا ہے۔ بہت سی کمپنیوں نے اجرتوں میں اضافہ کر کے ملازمین کی تعداد کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
ملازمتوں پر بھرتیوں سے منسلک کمپنی 'رینڈسٹیڈ نارتھ امریکہ' کے چیف ایگزیکٹو کیرن فچوک کا کہنا ہے کہ رینڈسٹیڈ کے مونسٹر جاب بورڈ کے مطابق ملازمتوں کے لیے اشتہارات میں 40 فی صد اضافہ ہوا ہے جب کہ اس کے برعکس ملازمتوں کی تلاش صرف چار فی صد بڑھی ہے۔
فچوک کے مطابق 'ملازمتوں کی طلب و رسد میں غیر معمولی فرق ہے۔'
خالی آسامیوں کو پُر کرنے میں مشکلات اس وقت سامنے آرہی ہیں جب معیشت بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ رواں برس کے ابتدائی تین ماہ میں حکومت نے معاشی نمو کے لیے چھ اعشاریہ چار فی صد سالانہ شرح کا اندازہ لگایا تھا۔ اپریل سے جون کی سہ ماہی میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ شرح 10 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے جمعرات کو کانگریشنل بجٹ آفس کا یہ اندازہ سامنے آیا ہے کہ 2021 کے پورے سال ترقی کی شرح چھ اعشاریہ سات فی صد رہے گی۔ سن 1984 کے بعد سے یہ ایک سال کے دوران یہ تیز ترین ترقی ہوگی۔
SEE ALSO: امریکہ کی معیشت کی شرح نمو میں 2021 کی پہلی سہ ماہی میں ساڑھے چھ فی صد اضافہدریں اثنا جون میں صارفین کا اعتماد بھی بڑھا ہے اور کانفرنس بورڈ کے مطابق یہ کم و بیش وبا سے قبل کے قریب پہنچ گیا ہے۔ مکان، گاڑی یا گھریلو استعمال کی بڑی اشیا کی خریداری کی تیاری کرنے والے صارفین کی فی صد شرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیمتوں میں حالیہ اضافے سے امریکی متاثر ہوتے نظر نہیں آتے۔ اپریل میں مکانات کی قیمتوں میں گزشتہ 15 برس کا سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
فیکٹریوں کی پیداوار کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے کیوں کہ کمپنیاں صنعتی مشینری، طیاروں اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے ملازمین کی صلاحیتِ کار بہتر ہوگی اور طویل المیعاد معاشی ترقی کو بھی فروغ ملے گا۔