عالمی اقتصادی فورم نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سائبر سیکیورٹی اور خلا میں پہنچنے کی دوڑ دنیا کی معیشت کے لیے ابھرتے ہوئے خطرات ہیں جو کہ موسمیاتی تبدیلی اور کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا کو پہلے سے درپیش مسائل میں اضافے کا سبب ہیں۔
عالمی خطرات سے متعلق منگل کو جاری ہونے والی یہ رپورٹ 1000 ماہرین اور رہنماؤں کی آرا پر مبنی ہے۔
عام طور پر یہ رپورٹ سوئٹزرلینڈ کے برف پوش مقام ڈیووس میں کاروباری شخصیات اور عالمی رہنماؤں کے سالانہ اجتماع سے پہلے جاری کی جاتی ہے لیکن کرونا کی عالمی وبا کے باعث اس فورم کو لگاتار دوسرے سال ملتوی کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس سال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2022 کے آغاز پر کووڈ کی عالمی وبا اور اس کے معاشی اور معاشرتی اثرات اب بھی دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
تازہ ترین عالمی منظر کیسا دکھائی دے رہا ہے؟
اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پزیر قوموں میں ویکسین تک رسائی میں بڑا فرق ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی معیشتیں غیر مساوی رفتار سے بحال ہو رہی ہیں اور یہ رجحان سماجی تقسیم کو مزید بڑھا سکتا ہے اور جغرافیائی و سیاسی تناؤ کو ہوا دے سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی وبا کے باعث سن 2024 تک عالمی معیشت کا حجم اس سے 2.3 فی صد تک کم ہوگا جتنا کہ وبا نہ آنے سے ہو سکتا تھا۔
ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں وبا سے پہلے کے مقابلے میں 5.5 فی صد سکڑنے کی پیش گوئی ہے، جب کہ امیر ممالک کی معیشتیں 0.9 فی صد کی شرح سے آگے بڑھیں گی۔
ڈیجیٹل خطرات
عالمی وبا کے دوران دفاتر میں کام کرنے والے بہت سے لوگ گھر سے کام کر رہے ہیں جبکہ کروڑوں طالب علم گھر سے کلاس لیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان رجحانات نے آن لائن پلیٹ فارمز اور آلات میں بے پناہ اضافے کو جنم دیا اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلی نے سلامتی کو درپیش خطرات میں ڈرامائی انداز میں اضافہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں ڈیجیٹل معاملات کی ماہر کیرولینا کلینٹ، جو مارش نامی کمپنی میں رسک مینجمنٹ کی سربراہ ہیں، کہتی ہیں کہ "ہم اس وقت اس مقام پر ہیں جہاں یہ خطرات سائبر حملوں کو مؤثر طریقے سے روکنے اور ان کا سامنا کرنے کی ہماری صلاحیت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔"
خیال رہے کہ مارش کی مالک کمپنی مارش میکملن، زہورخ انشورنس گروپ اور ایس۔کے گروپ نے مل کر ورلڈ اکنامک فورم کی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آن لائن فورمز کے وسیع تر استعمال سے سائبر حملے زیادہ جارحانہ اور وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ مجرم زیادہ خطرناک اہداف کے پیچھے جانے کے لیے سخت ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں نقائص پیدا کرنے والے میلویئر اور تاوان کے لیے آن لائن حملوں کا دور دورا ہے۔ دوسری طرف کرپٹو کرنسیوں میں اضافے سے آن لائن مجرموں کے لیے لین دین چھپانا آسان ہوتا جارہا ہے۔
سروے میں رائے دینے والوں نے سائبر سیکیورٹی کےخطرات کو مختصر اور درمیانی مدت کے خطرے کے طور پر شمار کیا ہے۔ لیکن کیرولینا کلینٹ نے کہا کہ رپورٹ کے مصنفین اس بات پر فکر مند ہیں کہ اس مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی جتنی دی جانی چاہیے۔
خلا تک پہنچنے کی دوڑ
خلا میں انسان کو بھیجنے کے لیے درکار ٹیکنالوجی کی لاگت میں کمی نے کمپنیوں اور حکومتوں کے درمیان ایک نئی خلائی دوڑ شروع کر دی ہے۔
گزشتہ سال، ایمیزون کے بانی جیف بیزوز اور ورجن گیلیکٹک کے سربراہ رچرڈ برانسن، دونوں اپنی کمپنیوں کے راکٹوں پر خلا کو چھو کر آئے جبکہ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے خلابازوں اور سیٹلائٹس کو لانچ کرنے کی جانب بڑی پیش رفت حاصل کی۔
دریں اثنا، بہت سے ممالک اپنے خلائی پروگراموں کو تیز کر رہے ہیں کیونکہ وہ جغرافیائی سیاسی اور فوجی یا سائنسی اور تجارتی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن ان تمام پروگراموں سے زمین کے مدار میں حادثات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مداروں کے بڑھتے ہوئے استعمال نے خلا میں بھیڑ اور ملبے میں اضافے سے ٹکڑاو کے امکان میں اضافہ کر دیا ہے۔
خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں جنم لینے والے خطرات سے نمٹنا ایک ایسا معاملہ ہے جس ہر سروے میں شامل ماہرین کے مطابق مختلف ممالک کے درمیان بہت کم تعاون کیا جا رہا ہے۔
موسمیاتی بحران
موسمیاتی تبدیلی کا بحران سب سے بڑا طویل مدتی مسئلہ ہے۔
اس تحقیقی سروے کے جواب دہندگان کے مطابق، اگلی دہائی کے دوران کرہ ارض کے حالات سب سے زیادہ تشویش ناک ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی، شدید موسم، اور حیاتیاتی تنوع میں کمی وہ تین مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی کمی کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ کچھ ممالک دوسروں کے مقابلے میں کاربن کے اخراج کو صفر پر لانے کا ماڈل اپنانے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دونوں نقطہ نظر کے منفی پہلو ہیں۔
ایک طرف تو کم رفتار سے آگے بڑھنے سے زیادہ لوگوں کو یہ شدید پریشانی ہو سکتی ہے کہ حکومت بروقت اقدامات نہیں کر رہی۔
دوسری طرف کاربن کا استعمال کرنے والی صنعتوں سے تیزی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش معاشی بحران کو جنم دے سکتی ہے اور لاکھوں لوگ اپنا روزگار کھو سکتے ہیں۔رپورٹ کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں ماحولیاتی پالیسیوں کو اپنانے سے فطرت کے لیے غیر ارادی نتائج بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
ان کے علاوہ غیر آزمودہ بایو ٹیکنیکل اورجیو انجینئرنگ ٹیکنالوجیز کے استعمال کے ابھی بہت سے نامعلوم خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔
[اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے]