پاکستان کے ممتاز صحافی ظفر عباس کو آزادی صحافت کے لیے خدمات کے اعتراف میں 2019 کے گوین ایفل ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ انھیں یہ ایوارڈ صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس یا سی پی جے کی سالانہ تقریب میں دیا گیا جو جمعرات کو نیویارک میں منعقد ہوئی۔
ظفر عباس پاکستان کے انگریزی روزنامے ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔ پاکستانی صحافت پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ڈان کئی سال سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار ہے۔ اس کا سلسلہ ڈان لیکس کے عنوان سے ہونے والے قضیے سے ہوا تھا۔
امریکی صحافی لیسٹر ہولٹ نے ظفر عباس کو ایوارڈ پیش کیا اور اس موقع پر کہا کہ ان سے بہتر اس اعزاز کا کوئی مستحق نہیں تھا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ظفر عباس نے کہا کہ وہ چالیس سال سے صحافت میں ہیں اور سچ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہتھیار ڈالنا صحافت نہیں ہے۔ سچ بولنا صحافت ہے۔
سی پی جے نے ایوارڈ کے لیے ظفر عباس کے نام کا اعلان جولائی میں کیا تھا۔ اس موقع پر ایک پیغام میں کہا گیا تھا کہ ایسے موقع پر کہ جب پاکستان کا میڈیا اور صحافی غیر معمولی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، ظفر عباس صحافیوں کے تحفظ کے لیے موثر آواز بنے ہوئے ہیں۔
سی پی جے بورڈ کی چیئرپرسن کیتھرین کیرول نے کہا کہ ظفر عباس صحافیانہ جرات کی علامت ہیں اس لیے انھیں یہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے وہ ادارے جو عوام یا پریس کی جانب سے کسی جانچ کے بغیر من مانی کرنا چاہتے ہیں، ان کے مسلسل دباؤ، رکاوٹوں اور بندشوں کے باوجود ظفر عباس ہر روز اپنے قارئین کو سچ فراہم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
ظفر عباس نے 1984 میں جونیئر رپورٹر کے طور پر کریئر کا آغاز کیا تھا۔ وہ بی بی سی اور ہیرلڈ میگزین کے لیے کام کرتے رہے اور 2010 میں ڈان کے ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔
ان پر دو بار حملے بھی ہو چکے ہیں۔ 1991 میں ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے پر ان کے کراچی میں گھر پر حملہ کیا گیا۔ کئی سال بعد، جب وہ بی بی سی کے لیے کام کر رہے تھے تو ان کے دفتر پر حملہ ہوا جس میں انھیں اور دوسرے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔