اسلام آباد میں صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ دبئی کے اسپتال میں زیر علاج صدر آصف علی زرداری کو جمعرات کے روز انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے کمرے میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ اس وقت آرام کر رہے ہیں۔
ترجمان کے بقول اب تک کیے گئے تمام طبی معائنوں اور لیبارٹری کے تجزیوں کے نتائج ڈاکڑوں نے نارمل قرار دیے ہیں اور صدر پاکستان کی صحت کے بارے میں کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔
پاکستانی صدر عارضہ قلب کی علامات کے بعد منگل کی شب ہنگامی طور پرعلاج کے لیے دبئی چلے گئے تھے اور بیرون ملک اُن کی اس اچانک روانگی کی وجہ سے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں صدر زرداری کے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاہم صدارتی ترجمان نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر کی صحت یابی کی خبر کے بعد یہ قیاس آرائیاں دم توڑ دیں گی۔
جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی صدر زرداری کی علالت کا معاملہ اٹھایا گیا اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اراکین کو بتایا کہ صدر مملکت تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں کی جانے والی قیاس آرائیوں کی وجہ غیر متعلقہ حکومتی نمائندوں سے رابطہ کرکے تخیلاتی خبروں کی تشہیر تھی۔
پاکستانی صدر کی دبئی روانگی سے محض دور روز قبل ان کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ وہ عاشورہ کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ نیٹو حملے اور میمو گیٹ اسکینڈل پر حکومت کا موقف پیش کریں گے۔
صدر زرداری اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو نومبر کے اوائل سے شدید سیاسی دباؤ کا سامنا ہے جس کی وجہ صدر سے منسوب امریکی قیادت کو بھیجا گیا مبینہ خط ہے جس میں پاکستان کی فوجی قیادت کی برطرفی کے لیے امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی۔
واشنگٹن میں سابق پاکستانی سیفر حسین حقانی پر الزام ہے کہ وہ اس خط کے مصنف تھے اور امریکی حکام تک اسے پہنچانے کا کام انھوں نے پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کو سونپا تھا۔
لیکن حسین حقانی اور وزیراعظم گیلانی کی حکومت ان الزامات کر رد کر چکے ہیں اور پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو اس پورے معاملے کی تفیتیش کا کام سونپا گیا ہے۔
لیکن اسی اثنا میں اپوزیشن رہنما نواز شریف نے میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے جس پر اپنے ابتدائی حکم میں عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کو تحریری بیانات داخل کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت دے رکھی ہے جو 16 دسمبر کو پوری ہو گی۔
اس درخواست میں نواز شریف نے صدر زرداری، حسین حقانی، وفاق، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو فریق بنا رکھا ہے۔
ادھر برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے توقع ظاہر کی ہے کہ صرر زرداری صحت یاب اورجلد وطن واپس جار کر اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لیں گے۔