Rana Muhammad Asif is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
کانگریس اور مسلم لیگ دونوں 1930 کی دہائی تک یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کو آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرح ڈومینین ہونا چاہیے اور اسی مطالبے پر بات کی جا رہی تھی۔
صدر ایوب خان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ڈرائیور نے سرگوشی کے انداز میں کہا کہ "صاحب ہمیں تو یہ بھی یقین نہیں کہ صدر صاحب زندہ ہیں یا مرچکے ہیں یا مار ڈالے گئے ہیں۔ ہاں ہم یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ صدر کے مکان پر چیف صاحب کا قبضہ ہے۔"
بھارت کے پہلے الیکشن کے موقعے پر یہ سوال درپیش تھا کہ ووٹ ڈالنے والوں کی نشان دہی کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں وہ انمٹ سیاہی ایجاد ہوئی جو آج بھی بھارت اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔
مبصرین کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں ملکی سیاست میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے، کئی خدشات کے باوجود انتخابات بھی ہوگئے لیکن ملکی سیاست میں بے یقینی کے آثار ختم نہیں ہورہے ہیں۔
ماہرین کے نزدیک صدارتی ریفرنس میں چوں کہ عدالت سے صرف بھٹو کیس میں عدالتی کارروائی کے بارے میں رائے معلوم کی گئی تھی اس لیے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دائرۂ سماعت محدود تھا۔
مریم نواز کے وزیرِ اعلیٰ بننے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بطور حکمران پنجاب سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ان کے چچا شہباز شریف بھی اسی راستے سے وزارتِ عظمی کے منصب تک پہنچے ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات کی وجہ سے ووٹرز میں انتخابی عمل سے متعلق لاتعلقی بڑھ رہی ہے جو ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر بھی اثر انداز ہوگی۔
وائس آف امریکہ کے سروے میں جہاں پاکستان کے 70 فی صد نوجوانوں نے آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، وہیں 17 فی صد نوجوانوں نے کہا ہے کہ وہ کبھی ووٹ نہیں ڈالیں گے۔
سروے کے رائے دہندگان میں سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کے نزدیک انتخابی نتائج ان کی روز مرہ زندگی پر اثر انداز نہیں ہوں گے
پاکستان میں آئین سازی اور عام انتخابات کے انعقاد میں ہونے والی تاخیر کے باعث ملک کو اپنے ابتدائی برسوں ہی میں کئی سیاسی اور قانونی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جو آنے والے برسوں میں بھی اس کے لیے چیلنج بنے رہے۔
نواز شریف کے علاوہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے نظیر بھٹو کی 1986 اور 2007 میں وطن واپسی نے سیاسی فضا تبدیل کردی تھی۔ 1986 میں بے نظیر بھٹو جب واپس آئیں تو ملک میں ان کے والد کو اقتدار اور زندگی سے محروم کرنے والی فوجی حکومت تھی۔
جنرل ضیاء الحق کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے بھی الیکشن کی تیاری شروع کردی تھی لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ الیکشن کے لیے دیے گئے یہ نوے دن کئی سال طویل ہوجائیں گے
صدارتی محل پر چڑھائی کے بعد جنرل آگسٹو پنوشے نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داخلی انتشار اور سلواڈور آلندے کی مارکسی حکومت کی لوٹ مار کی وجہ سے ملکی سالمیت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے افواج نے اقتدار سنبھالا ہے۔
آئینی طور پر یہ ریاستیں برطانوی ہند کا حصہ نہیں تھیں اور نہ ہی ان میں رہنے والے برطانوی رعایا میں شمار ہوتے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ کو شاہی ریاستوں کے لیے قانون سازی کا اختیار نہیں تھا اور یہ ریاستیں بظاہر براہ راست برطانوی فرماں روا کے ماتحت تھیں۔
یہ سفارت کاری کی تاریخ کے ایک ایسے سنسنی خیز باب کا تذکرہ ہے جب پاکستان نے چین اور امریکہ کے درمیان رابطے بحال کرانے کے لیے کردار ادا کیا اور اس پورے مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے کسی فلمی کہانی جیسا منصوبہ بنایا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جس انداز میں میئر کراچی کا انتخاب ہوا اور انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کی سیاسی اہمیت زیادہ ہوتی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 168 ہے اور اس اعتبار سے اگر حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی یعنی 24 کروڑ کو اس ہندسے سے تقسیم کیا جائے تو 14 لاکھ افراد کے لیے ایک سیاسی جماعت بنتی ہے۔ اب ان سیاسی جماعتوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے۔
صدف زہرا کراچی کی ایک اسکول ٹیچر ہیں جو مہنگائی کے باعث آمدن اور اخراجات کے بگڑتے توازن سے پریشان ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں لیکن زندگی کی گاڑی چلانا پھر بھی مشکل ہو رہا ہے۔ صدف کی کہانی سنتے ہیں انہی کی زبانی۔
پاکستان کی سیاست میں قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں انتخابی اثر و رسوخ رکھنے والے سیاست دانوں کا کسی سیاسی پلیٹ فورم پرجمع ہونا یا کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے بننے ٹوٹنے کا انحصار پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں طاقت اور اقتدار کے توازن پر ہے۔
مزید لوڈ کریں