قانونی ماہرین کے نزدیک سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دینا علامتی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے بقول اس سے ملک کے نظامِ انصاف میں پائےجانے والے کئی نقائص کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے بھٹو کیس پر 2011 میں اس وقت کے صدر آصف زرداری کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس پر اپنی عدالتی رائے جاری کی ہے۔
صدارتی ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم بھٹو کے ٹرائل سے متعلق پانچ سوالات اٹھائے گئے تھے۔ صدارتی ریفرنس میں دیے گئے سوالوں پر عدالتی رائے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھٹو ٹرائل میں فیئر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔ فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں اس سوال میں قانونی اصول کو واضح نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو ایک قتل کے مقدمے میں پھانسی دی گئی تھی۔ پانچ جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وزیرِ اعظم بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے اس مقدمے میں کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
قتل کا یہ واقعہ نومبر 1974 میں پیش آیا تھا اور اس مقدمے میں مقتول کے بیٹے احمد رضا قصوری نے ذوالفقار علی بھٹو کو نامزد کیا تھا۔ بعدازاں مارچ 1978 میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان انوار الحق کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی اور فروری 1979 میں تین کے مقابلے میں جار ججز کی رائے سے اپیل مسترد کردی۔ اس فیصلے میں بینچ کے تین ججز نے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ قرار دیا تھا۔
تاہم عدالتی روایات سے ہٹ کر اس مقدمے میں تین ججز کے اختلاف کے باوجود قتل کے مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کو جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا یعنی سزائے موت دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی کئی دہائیوں بعد ان کے داماد اور اس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے 2011 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جس میں بھٹو کےخلاف عدالتی کارروائی پر عدالتی رائے مانگی گئی تھی۔
ریفرنس دائر ہونے کے تقریباً 13 برس بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ٹرائل کو غیر شفاف اور خلافِ آئین و قانون قرار دیا ہے۔ البتہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرنے یا اس معاملے میں از سر نو کارروائی کا حکم نہیں دیا ہے۔
ماہرین کے نزدیک صدارتی ریفرنس میں چوں کہ عدالت سے صرف بھٹو کیس میں عدالتی کارروائی کے بارے میں رائے معلوم کی گئی تھی اس لیے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دائرۂ سماعت محدود تھا۔
تاہم قانونی ماہرین کے نزدیک بھٹو کیس پر عدالت کی رائے کی اپنی تاریخی اور علامتی اہمیت ہے۔
یہ ریفرنس کتنا ضروری تھا؟
پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن اور سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کی رائےدورس اثرات مرتب کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینج نے ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از مرگ معاملے میں انصاف فراہم کیا ہے اور صرف اس بنیاد پر صرفِ نظر نہیں کیا کہ یہ 45 سال پرانی بات ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کہ کئی ممالک میں اس بات کی نظیر پائی جاتی ہے کہ بعد از مرگ لوگوں کو انصاف دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کی رائے تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اسے پاکستان میں قانون و آئین کی تاریخ اور نصاب میں شامل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو بھی داد دیتے ہیں کہ انہوں نے 2011 سے زیرِ التوا اس معاملے کو چند ماہ کے اندر نمٹا کر ایک بڑی تاریخی غلطی درست کردی۔
’رائے دینے کے لیے طویل سماعتوں کی ضرورت نہیں تھی‘
تاہم بعض حلقوں کی جانب سے یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ موجودہ حالات میں جب پاکستان میں آئینی و قانونی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں وہاں کئی دہائیوں قبل ہونے والے ایک فیصلے پر عدالتی وقت صرف کرنا ضروری نہیں تھا۔
ممتاز قانون دان معیز جعفری کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں کوئی ایسا فوری قانونی مسئلہ درپیش نہیں تھا جس کے لیے اس ریفرنس کو سننا ضروری سمجھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے صرف اپنی رائے میں بھٹو کے ٹرائل کو غیر شفاف اور غیر قانونی قرار دینے پر اکتفا کیا ہے۔ اگر یہی رائے سامنے آنا تھی تو جسٹس (ر) منظور ملک سے پورے کیس کی اتنی باریکیاں کیوں معلوم کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے مقرر کردہ قانونی معاونین میں سے شامل سینئر وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو قانونی کارروائی میں بطور نظیر پیش ہی نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ چار دہائیوں میں کسی نے اس فیصلے کی قانونی حیثیت تسلیم نہیں کی ہے۔
معیز جعفری کا کہنا تھا کہ اگر صدارتی ریفرنس کی وجہ سے طے شدہ دائرہ کار میں عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی تو اس پر محض رائے دینے کے لیے اتنی طویل کارروائی کیوں کی گئی کیوں کہ پاکستان کی قانونی و عدالتی روایت میں پہلے قابلِ قبول تصور نہیں ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے صرف ٹرائل کے غیر شفاف ہونے کی رائے دینا تھی تو اس کے لیے اتنی طویل عدالتی کارروائی و بیانات کی ضرورت نہیں تھی۔
صدارتی ریفرنس پر ہونے والی سماعتوں کے بارے میں سینئر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ قانون میں ’جائز قانونی عمل‘ کا تصور یہ لازم کرتا ہے کہ ریفرنس میں درپیش تمام سوالوں اور ضروری حقائق کا جائزہ لیا جائے۔
سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس ریفرنس میں عدالت کی رائے نے یہ مثال بھی قائم کی ہے کہ معاملے کی نوعیت چاہے جو بھی ہو عدالت کو اپنے سامنے آنے والے کسی بھی معاملے کو ہر پہلو سے سننا ضروری ہوتا ہے۔
عدالتی رائے میں کسی فیصلےکو کالعدم قرار نہ دینے کے بارے میں اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت کا دائرہ اختیار صرف اس پر اپنی آئینی و قانونی رائے دینا تھا۔ جہاں تک فیصلہ کالعدم کرنے کا سوال ہے تو اس کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی کیوں کہ اس معاملے میں متاثرہ فریق کو کسی فوری ریلیف کا امکان نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بھٹو صاحب کو تو عدالت واپس لا نہیں سکتی تھی لیکن ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تو واضح کر سکتی تھی۔
تاہم معیز جعفری کا کہنا ہے کہ عدالت نے اس لیے بھی بھٹو کیس میں نظر ثانی یا اسے کالعدم کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا کیوں کہ اس صورت میں یہ رائے نو رکنی بینچ کی متفقہ رائے نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس کے دوران بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ کا رجحان واضح تھا کہ اس پر صرف رائے دینے تک محدود رہا جائے۔ اس لیے عدالت اسے سے الگ راستہ اختیار کرتی تو شاید رائے متفقہ نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھٹو کیس پر نظر ثانی یا از سرِ نو کارروائی اس لیے بھی نہیں کی گئی کہ اس کے لیے عدالت کو اپنا سو موٹو اختیار استعمال کرنا پڑتا جس کی مثالیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں بھی ملتی ہیں۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس ماضی میں اپنے خطوط میں اس طریقۂ کار سے اختلاف کرتے آئے ہیں۔
’تاریخی حقائق ریکارڈ کا حصہ بن گئے‘
بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ بہت سے تاریخی حقائق عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بن گئے ہیں کہ کس طرح ہائی کورٹ میں بھٹو کے ٹرائل کے لیے پنجرہ رکھا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کا بھٹو سے عناد واضح تھا۔ لیکن انہوں ںے اس کے باجود بینجز بنائے اور اس کیس کی سماعت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ میں سے چار ججز نے بھٹو کو گناہ گار قرار دیا جب کہ تین ارکان نے انہیں بے گناہ قرار دیا۔ بھٹو کی اپیل مسترد کرنے والے ججز میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعد میں ٹیلی ویژن انٹرویو میں تسلیم کیا کہ انہیں بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے غصہ دلا دیا تھا اس لیے اپیل مسترد کردی۔
انہوں نے کہا کہ جب عدالتی تاریخ میں اس طرح فیصلے کیے گئے ہوں تو ان کی تاریخ درست کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھٹو کیس سے متعلق تاریخی شواہد سامنے آنے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے ریفرنس بھیج کر ایک تاریخی قدم اٹھایا تھا جس کا نتیجہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ ایک بار پھر منصبِ صدارت سنبھالنے والے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر بھٹو خاندان کے تمام افراد اور پیپلز پارٹی کے جیالے مبارک باد کے مستحق ہیں کیوں کہ چار دہائیوں بعد آج ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ان کا مؤقف درست تسلیم کر لیا ہے۔
تاہم معیز جعفری کا کہنا ہے کہ بھٹو کیس پر صدارتی ریفرنس بنیادی طور پر 2011 میں بابر اعوان نے اس لیے دائر کیا تھا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری کے مقابلے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو دفاعی پوزیشن میں لایا جا سکے۔
ان کے بقول، جہاں تک بھٹو کیس میں عدالتی رائے سے تاریخ درست ہونے کا سوال ہے تو اس مقدمے کے بارے میں پہلے تاریخ طے کر چکی ہے کہ اس میں بھٹو اور ان کے خاندان کے ساتھ ظلم ہوا۔
’عدالت نے خو کو بری کیا ہے‘
معیز جعفری کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ملک کو شہری حقوق اور دیگر اتنے فوری مسائل کا سامنا ہے تو بھٹو کیس کے صدارتی ریفرنس پر اتنا وقت کیوں صرف کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو تاریخ درست کرنے کے ساتھ حال میں ہونے والی غلطیوں کو بھی سدھارنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی معاملے کو دیکھا ہے۔ لیکن اس میں آج کے مقتدر حلقوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ ماضی کی غلطیاں وقت کے بوجھ تلے دب نہیں جاتیں بلکہ انصاف ہو کر رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی جو لوگ نو مئی کے واقعات کی بنیاد پر کسی کی سیاست دفن کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ عدالتی فیصلوں میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ بھٹو کیس میں سامنے آنے والی عدالتی رائے اس لیے اہم ہے کہ اگر آپ کو مستقبل میں درست راستہ اختیار کرنا ہو تو ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھٹو کیس میں قانونی پروسیجر میں جو نقائص تھے وہ سپریم کورٹ کی حالیہ رائے میں مزید واضح ہو گئے ہیں۔ اس لیے یہ پارلیمنٹ کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ملک کانظامِ عدل اور ملک میں سزا و انصاف کا جو نظام ہے اس میں کیا اصلاحات کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ رائے اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ ماضی میں بھٹو کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر مسلسل تنقید ہوتی رہی ہے اور ادارے پر کئی کڑے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ رائے دے کر بھٹو صاحب ہی کو نہیں خود کو بھی ایک بڑے الزام سے بری کیا ہے۔
فورم