عاصم علی رانا وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن سے قبل سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے بھی اپنے عہدے سے اسعفٰی دے دیا تھا اور جمعرات کو صدرِ پاکستان نے اُن کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا تھا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو برقرار رکھنے سے پاکستان میں آئین شکنی کا راستہ بند ہو سکتا ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف وفات پا چکے ہیں، لہذٰا اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے مستعفی ہونے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا تعلق گوجرانوالہ شہر سے ہے۔ 1998 میں وہ ہائی کورٹ اور 2001 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کی تھی جس میں چھ، ایک کے تناسب سے فیصلہ آیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھانہ کھنہ کے علاقہ غوری ٹاون میں گاڑی پر فائرنگ کے نتیجہ میں ایک شخص اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔پولیس کے مطابق ہلاک شخص کی شناخت مولانا مسعود الرحمن عثمانی کے نام سے ہوئی ہے۔
سینیٹ میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات ملتوی کرانے کی ایک قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کی گئی ہے۔ سینیٹر دلاور خان کی پیش کردہ قرارداد میں امن و امان کی صورتِ حال اور سرد موسم کے باعث دشواریوں کو بنیاد بناتے ہوئے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عاصم علی رانا کی رپورٹ۔
پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم ابھی بھی پرامید ہے کہ انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے ریلیف ملے گا اور وہ بلے کے نشان کے ساتھ ہی آئندہ انتخابات میں جائیں گے۔
سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ تا حیات نا اہلی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اس سات رکنی بینچ کے سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ جب کہ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سینیٹ میں یہ قرارداد ایسے وقت میں آئی ہے جب دو روز قبل اسلام آباد میں کسانوں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر افواہوں اور منفی باتوں کے ذریعے ہیجان اور مایوسی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اگر صاف و شفاف انتخابات نہ ہوئے تو ملک ڈی ریل ہو جائے گا۔ بلے کا نشان واپس لینے کا مقصد ہے کہ پی ٹی آئی شفاف انتخابات میں سامنے نہ آ سکے، بلا صرف سیاسی نشان نہیں بلکہ 70 فی صد عوام کے امنگوں کا ترجمان ہے۔
لاپتا افراد کی بازیابی اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت کے خلاف تربت سے اسلام آباد پہنچنے والے بلوچ یک جہتی مارچ کے شرکا کا اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر دھرنا جاری ہے۔ مارچ کی منتظم ماہ رنگ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کے 100 شرکا اب بھی مسنگ ہیں جب کہ پولیس کے مطابق تمام 290 افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے جمعے کو سماعت کے دوران پراسیکیوشن کے دلائل کے بعد کہا کہ جو دستاویزات دکھائی جارہی ہیں اس سے کسی طور پر کیس ثابت نہیں ہوتا۔
بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف جمعے کو درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) کو گرفتار افراد سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ مظاہرین اسلام آباد میں جہاں پر امن احتجاج کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کا حق حاصل ہے۔
نگراں حکومت نے بلوچ یک جہتی مارچ کی گرفتار خواتین کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ لاپتا افراد اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت کے خلاف تربت سے شروع ہونے والا مارچ بدھ کو اسلام آباد پہنچا تھا جہاں مبینہ طور پر پولیس نے مارچ کے شرکا کے خلاف کارروائی کرکے متعدد کو گرفتار کیا تھا۔ عاصم علی رانا کی رپورٹ۔
اسلام آباد پولیس نے خواتین کو گرفتار کرنے کی تردید کی ہے جب کہ یکجہتی مارچ کے منتطمین کا دعویٰ ہے کہ بدھ کی شب سے 50 خواتین لاپتا ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ دو جنوری 2024 کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ارکانِ پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرے گا۔
پی ٹی آئی نے حال ہی میں ایک آن لائن جلسہ کیا جس میں عمران خان کی آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے بنائی گئی ایک ویڈیو بھی نشر ہوئی۔ اس ویڈیو کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ اے آئی سے بنائے گئے ایسے پیغامات انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے عاصم علی رانا کی رپورٹ میں۔
عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے اتوار کو آن لائن جلسہ کرنے کا اعلان کیا تو مبینہ طور پر نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی کم تھی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس میں جمعرات کو سماعت میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق دو مزید بریگیڈیئرز کے نام بھی شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے اس کیس میں فریق بنانے کے لیے دیے گئے تھے، لیکن عدالت نے انہیں نوٹس جاری نہیں کیے اور چار افراد کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
شوکت عزیز صدیقی نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی فریق بنانے کی استدعا کی ہے۔
مزید لوڈ کریں