رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف سے مذاکرات: ’اگلی حکومت کو سب باتیں تسلیم کرنی ہوں گی‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ورچوئل مذاکرات جاری ہیں البتہ اس بارے میں حکومت یا آئی ایم ایف نے اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔

ان مذاکرات کے بارے میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے کچھ تحفظات ہیں جن پر بات چیت جاری ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری سے قبل اس کے بھاری قرضوں کو حکومتی قرضوں کا حصہ بنانا اور گردشی قرضوں کا پلان بھی اس وقت زیرِ بحث ہے۔

پاکستان میں حکام کی درخواست پر آئی ایم ایف نے صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی، گردشی قرضے کے پانچویں حصے سے زیادہ کی ادائیگی اور پی آئی اے کے 268 ارب روپے کے قرض کو حکومتی قرضوں کا حصہ بنانے کی عبوری حکومت کی تجاویز کی فوری طور پر توثیق نہیں کی۔

مبصرین کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کے ساتھ دو ورچوئل میٹنگ منقعد کی ہیں۔ لیکن ان کے نتائج اب تک پاکستانی حکام کی توقعات سے کم رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے دی جانے والی تین تجاویز پر بات چیت کا اگلا دور اضافی معلومات فراہم کرنے اور آئی ایم ایف کے اندرونی جائزے کے بعد ہوگا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی تین اہم تجاویز کے معاشی اور قانونی طور پر قابلِ عمل ہونے کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔

آئی ایم ایف نے اس قدر جلد بازی کی وجوہات کے بارے میں بھی استفسار کیا ہے جب کہ الیکشن کمیشن عبوری حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری پر فیصلے سے پہلے ہی روک چکا ہے۔

آئی ایم ایف کا بنیادی اعتراض پی آئی اے کے قرضوں کو حکومتی قرض بنانے کی فوری ضرورت پر تھا۔

حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ادارہ نجکاری کے لیے تیار ہے اور اس کی آئندہ آمدنی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہو گی۔ لیکن پھر بھی وہ نگراں سیٹ اپ کے خاتمے سے قبل 268 ارب روپے کو حکومتی قرضوں کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔

آئی ایم ایف پی آئی اے کی نجکاری کے ممکنہ وقت اور کم از کم ریزرو قیمت کے بارے میں مزید وضاحت چاہتا تھا۔

ان مذاکرات سے واقف اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کا استفسار تھا کہ قرضے کی ادائیگی کے لیے پی آئی اے کی نجکاری کا انتظار کیوں نہ کیا جائے؟ آئی ایم ایف کے ساتھ میٹنگز میں سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پاکستان اسٹیٹ آئل کے قرضوں پر بھی سوال اٹھایا گیا۔

آئی ایم ایف کو کمرشل بینکوں اور وفاقی حکومت کے درمیان 268 ارب روپے کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس مفاہمت کے تحت حکومت پی آئی اے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو اصل رقوم کی ادائیگیوں کے لیے استعمال کرے گی اور اگر فنڈز ناکافی ہوئے تو بجٹ کا سہارا لے گی۔

تجزیہ کار اور صحافی فرحان بخاری کہتے ہیں کہ آئندہ ہفتے اُس وقت تک نئے وزیرِ اعظم کے حلف کی بات ہو رہی ہے۔ نگراں حکومت ایک فریم ورک چھوڑ کر جا رہی ہے جس میں اگلی حکومت کو جواب دینا ہوگا۔

ان کے مطابق اس وقت پاکستان کی معیشت مختلف مسائل کا شکار ہے جس میں گردشی قرضے کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتیں مختلف اعلانات کر رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی بینک اور دیگر ادارے پریشان ہیں کہ اگر سولر یا گاڑیوں کی کوئی نئی اسکیم آئندہ حکومت لائی تو مشکل بڑھ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط کو تسلیم کرنا ہوگا کیوں کہ اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم نہیں کرتی تو اپریل کے بعد انہیں اگلی قسط نہیں ملے گی۔

ان کے بقول پاکستان حکومت پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اگلی سیاسی حکومت کیا کرے گی اور سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے ایک بار پھر پی آئی اے کو چلانے کا کہے گی؟ تو دیکھنا پڑے گا کہ ایسا ممکن بھی ہے کہ نہیں۔ کیوں کہ سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی فائدہ دیکھتی ہیں۔

فرحان بخاری کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کا رسک بہت بڑھ چکا ہے اور عالمی سطح پر سرمایہ کار پاکستان کے حوالے سے خوف زدہ ہیں کہ وہ یہاں آ کر کل کو کس صورتِ حال کا سامنا کریں گے۔

سینئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گردشی قرضوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کو پلان دیا ہے۔ اس وقت توانائی کے شعبہ میں پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے متبادل پلان دیا گیا ہے۔

ان کے بقول اس کے علاوہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ بھی زیرِ بحث ہے۔ لیکن آئی ایم ایف نے اب تک پاکستان کو کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔ آئی ایم ایف کسی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جو بھی اگلی حکومت آئے گی اسے سب باتوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے نگراں حکومت کے ساتھ بات چیت میں مختلف سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے تحفظات بھی ہیں۔ لیکن اب تک کچھ بھی حتمی طور پر طے نہیں ہوسکا۔

صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی کے معاملے پر مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جاتا ہے جب کہ سردیوں میں اس کی ڈیمانڈ بہت کم ہو جاتی۔ لیکن پاکستان کو "کیپسٹی ری پیمنٹس" کرنی ہوتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو ایک منصوبہ دیا ہے جس کے مطابق صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمت کم کرکے معاشی شرگرمیوں کو تیز کیا جائے گا۔

ان کے بقول کیپسٹی ری پیمنٹس کے ادائیگی کے لیے بجلی کی پیداوار کے مطابق استعمال کو بھی بڑھایا جاسکے گا۔ لیکن اس بارے میں ابھی آئی ایم ایف کی طرف سے جواب کا انتظار ہے۔

XS
SM
MD
LG