گذشتہ کسی عشروں سے ڈی این اے پر بہت کام ہورہاہے اوراس کے نئے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔ حال ہی میں انسانی ڈی این اے میں ایک ایسے جین کی دریافت کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کاتعلق محبت سے ہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ یہ نئی دریافت اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنے والوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اب انہیں سچی محبت کرنے والے ساتھی کی تلاش کے لیے طویل وقت اور لمبی سوچ بچار صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ڈی این اے کا صرف ایک مخصوص ٹیسٹ ان کی یہ مشکل حل کرسکتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ مستقبل قریب میں شادی دفتر اور جیون ساتھی ڈھونڈنے میں مدد دینے والے ادارے اس نئی دریافت کا استعما ل شروع کردیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بہت سے لوگ اپنی محبت کے اظہار کے لیے خوبصورت اشعارسنانے، دل کی تاروں کو چھونے والے جملے بولنے اور گلاب کے پھول پیش کرنے کی بجائے صرف اپنے جینیاتی کوڈ کی ایک نقل پیش کرنے لگیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے جینیاتی ٹیسٹ پراٹھنے والے اخراجات کم ہورہے ہیں، اور اس جانب لوگوں کار جحان بڑھ رہاہے، آنے والے برسوں میں جین کے محبت سے متعلق ٹیسٹ بھی شادی کا ایک حصہ بن جائیں گے۔
لیکن شادی صرف محبت کا ہی نام نہیں ہے اس کا تعلق نسل بڑھانے سے بھی ہے۔ ہر شادی شدہ جوڑے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے صحت مند، ذہین اور خوبصورت ہوں ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس خواہش کی تکمیل اب ممکن ہوتی جارہی ہےاور بچہ پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والا جوڑا اپنے مکمل جینیاتی ٹیسٹ سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ ان کا بچہ کیسا ہوگا۔
برطانیہ کے ایمپیرئل کالج لندن کے پروفیسرآرمنڈ لیروئی کا کہناہے کہ آئندہ پانچ سے دس سال کے اندر ایک دوسرے کےبارے میں سنجیدگی سے سوچنے والے نوجوانوں میں یہ عام ہوجائے گا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل اس سے جینیاتی کوڈ کی نقل فراہم کرنے کے لیے کہیں۔
ڈربن میں یورو سائنس اوپن فورم2012ء میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے انہوں نےبتایا کہ آنے والے برسوں میں صحت مند اور موروثی بیماریوں سے محفوظ بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والے جوڑے شادی کا فیصلہ کرنے سے پہلے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جینیاتی نقشے کی کاپی طلب کرنے لگیں گے۔
پروفیسر آرمنڈ نے کہا کہ آئی وی ایف کے ذریعے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا وہ کسی لاعلاج مرض میں تو مبتلا نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مستقبل کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ جینیاتی شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے والدین کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ طے کرلیں کہ اس ذہانت کی سطح کیا ہو، بالوں اور آنکھوں کی رنگت کیسی ہواور وہ کیسا مزاج رکھتا ہو۔
مگر ان کا کہناتھا کہ جب یہ ٹیسٹ عام ہوجائیں گے تو میرا خیال ہے کہ اکثر والدین زیادہ اہمیت صحت مند اور خطرناک بیماریوں سے محفوظ بچوں کی پیدائش کو دیں گے۔
حالیہ برسوں میں کسی شخص کے مکمل جینیاتی کوڈ کی نقل حال کرنے کے اخراجات میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ ایسے ٹیسٹ پر ابتدائی دنوں میں دس لاکھ ڈالرسے زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی مگر اب وہی ٹیسٹ اکثر لیبارٹریاں صرف چار ہزار ڈالر میں کررہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ ٹیسٹ مزید سستے ہوجائیں گے اور کم آمدنی والے افراد کے لیے یہ ٹیسٹ کرانا ممکن ہوجائے گا۔
ہر انسان قدرتی طور پر صحت مند، خوبصورت اور ذہین بچوں کی پیدائش کی خواہش رکھتا ہے۔ جینیاتی ماہرین کا کہناہے کہ ان خواہشوں کی تکمیل والدین کے ڈی این سے مشروط ہے۔ انسانی جین کی ساخت اور اس کے نقشے تک رسائی حاصل کرلینے کے بعد اب ماہرین کو توقع ہے کہ وہ ایسا طریقہ کار ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے ذریعے جین کی ان خرابیوں کو درست کیا جاسکے جو موروثی اور لاعلاج بیماریوں، ذہانت کی کمی اور بدصورتی کا سبب بنتی ہیں۔ایک جینیاتی ماہر فلیپا ٹیلر کا کہناہے کہ ہزاروں سال پرانی یہ خواہش آئندہ چند عشروں میں حقیقت بننے والی ہے اورہم میں سے اکثر لوگ اپنی زندگیوں میں ہی ایسا ہوتا ہوا دیکھیں گے۔
ماہرین اس صدی کے وسط کی تصویر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کلینک عام ہوجائیں گے جہاں جوڑے جینیاتی ماہر کو یہ بتائیں گے وہ کس طرح کا بچہ پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ، یعنی اس کے بالوں اور آنکھوں کی رنگت کیا ہو۔ قد کاٹھ کتنا ہو۔ ذہانت کا معیار کیا ہو اور وہ کس شعبے کی جانب رجحان رکھتا ہو۔جینیاتی ماہر اپنی لیبارٹری کے ذریعے ایک ایسے بچے کا جین تیار کرنے میں ان کی مدد کرے گاجو والدین کی خواہشات سے مطابقت رکھتا ہو۔
ابھی یہ منزل تیس سے چالیس سال کی دوری پر ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہناہے کہ اس عبوری عرصے میں نوجوان جوڑے صحت مند اور موروثی بیماریوں سے محفوظ بچوں کی پیدائش کے لیے جینیاتی ماہر سے راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر ان کے جین آپس میں مطابقت نہ رکھتے ہوں تو انہیں بچے پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے یا پھر کوئی ایسا شریک حیات ڈھونڈنا چاہیے جس کے جین ایک دوسرے کے لیے موزوں ہوں۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ یہ نئی دریافت اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنے والوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اب انہیں سچی محبت کرنے والے ساتھی کی تلاش کے لیے طویل وقت اور لمبی سوچ بچار صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ڈی این اے کا صرف ایک مخصوص ٹیسٹ ان کی یہ مشکل حل کرسکتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ مستقبل قریب میں شادی دفتر اور جیون ساتھی ڈھونڈنے میں مدد دینے والے ادارے اس نئی دریافت کا استعما ل شروع کردیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بہت سے لوگ اپنی محبت کے اظہار کے لیے خوبصورت اشعارسنانے، دل کی تاروں کو چھونے والے جملے بولنے اور گلاب کے پھول پیش کرنے کی بجائے صرف اپنے جینیاتی کوڈ کی ایک نقل پیش کرنے لگیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے جینیاتی ٹیسٹ پراٹھنے والے اخراجات کم ہورہے ہیں، اور اس جانب لوگوں کار جحان بڑھ رہاہے، آنے والے برسوں میں جین کے محبت سے متعلق ٹیسٹ بھی شادی کا ایک حصہ بن جائیں گے۔
لیکن شادی صرف محبت کا ہی نام نہیں ہے اس کا تعلق نسل بڑھانے سے بھی ہے۔ ہر شادی شدہ جوڑے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے صحت مند، ذہین اور خوبصورت ہوں ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس خواہش کی تکمیل اب ممکن ہوتی جارہی ہےاور بچہ پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والا جوڑا اپنے مکمل جینیاتی ٹیسٹ سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ ان کا بچہ کیسا ہوگا۔
برطانیہ کے ایمپیرئل کالج لندن کے پروفیسرآرمنڈ لیروئی کا کہناہے کہ آئندہ پانچ سے دس سال کے اندر ایک دوسرے کےبارے میں سنجیدگی سے سوچنے والے نوجوانوں میں یہ عام ہوجائے گا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل اس سے جینیاتی کوڈ کی نقل فراہم کرنے کے لیے کہیں۔
ڈربن میں یورو سائنس اوپن فورم2012ء میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے انہوں نےبتایا کہ آنے والے برسوں میں صحت مند اور موروثی بیماریوں سے محفوظ بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والے جوڑے شادی کا فیصلہ کرنے سے پہلے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جینیاتی نقشے کی کاپی طلب کرنے لگیں گے۔
پروفیسر آرمنڈ نے کہا کہ آئی وی ایف کے ذریعے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا وہ کسی لاعلاج مرض میں تو مبتلا نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مستقبل کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ جینیاتی شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے والدین کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ طے کرلیں کہ اس ذہانت کی سطح کیا ہو، بالوں اور آنکھوں کی رنگت کیسی ہواور وہ کیسا مزاج رکھتا ہو۔
مگر ان کا کہناتھا کہ جب یہ ٹیسٹ عام ہوجائیں گے تو میرا خیال ہے کہ اکثر والدین زیادہ اہمیت صحت مند اور خطرناک بیماریوں سے محفوظ بچوں کی پیدائش کو دیں گے۔
حالیہ برسوں میں کسی شخص کے مکمل جینیاتی کوڈ کی نقل حال کرنے کے اخراجات میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ ایسے ٹیسٹ پر ابتدائی دنوں میں دس لاکھ ڈالرسے زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی مگر اب وہی ٹیسٹ اکثر لیبارٹریاں صرف چار ہزار ڈالر میں کررہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ ٹیسٹ مزید سستے ہوجائیں گے اور کم آمدنی والے افراد کے لیے یہ ٹیسٹ کرانا ممکن ہوجائے گا۔
ہر انسان قدرتی طور پر صحت مند، خوبصورت اور ذہین بچوں کی پیدائش کی خواہش رکھتا ہے۔ جینیاتی ماہرین کا کہناہے کہ ان خواہشوں کی تکمیل والدین کے ڈی این سے مشروط ہے۔ انسانی جین کی ساخت اور اس کے نقشے تک رسائی حاصل کرلینے کے بعد اب ماہرین کو توقع ہے کہ وہ ایسا طریقہ کار ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے ذریعے جین کی ان خرابیوں کو درست کیا جاسکے جو موروثی اور لاعلاج بیماریوں، ذہانت کی کمی اور بدصورتی کا سبب بنتی ہیں۔ایک جینیاتی ماہر فلیپا ٹیلر کا کہناہے کہ ہزاروں سال پرانی یہ خواہش آئندہ چند عشروں میں حقیقت بننے والی ہے اورہم میں سے اکثر لوگ اپنی زندگیوں میں ہی ایسا ہوتا ہوا دیکھیں گے۔
ماہرین اس صدی کے وسط کی تصویر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کلینک عام ہوجائیں گے جہاں جوڑے جینیاتی ماہر کو یہ بتائیں گے وہ کس طرح کا بچہ پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ، یعنی اس کے بالوں اور آنکھوں کی رنگت کیا ہو۔ قد کاٹھ کتنا ہو۔ ذہانت کا معیار کیا ہو اور وہ کس شعبے کی جانب رجحان رکھتا ہو۔جینیاتی ماہر اپنی لیبارٹری کے ذریعے ایک ایسے بچے کا جین تیار کرنے میں ان کی مدد کرے گاجو والدین کی خواہشات سے مطابقت رکھتا ہو۔
ابھی یہ منزل تیس سے چالیس سال کی دوری پر ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہناہے کہ اس عبوری عرصے میں نوجوان جوڑے صحت مند اور موروثی بیماریوں سے محفوظ بچوں کی پیدائش کے لیے جینیاتی ماہر سے راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر ان کے جین آپس میں مطابقت نہ رکھتے ہوں تو انہیں بچے پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے یا پھر کوئی ایسا شریک حیات ڈھونڈنا چاہیے جس کے جین ایک دوسرے کے لیے موزوں ہوں۔