’ناسا‘ منسوخ کی گئی خلائی گاڑی’اینڈیور‘ کو دوبارہ سفر کےقابل بنانے کی تیاری کررہاہے۔ اِس بار، اینڈیور کو اپنے مستقل مقام کی طرف منتقل کیا جائےگا جہاں اُس کی لاس انجلیس میں واقع ’کیلی فورنیا سائنس سینٹر‘ میں نمائش ہوگی۔
تاہم، وہاں کے کچھ مکینوں کا کہنا ہے کہ تاریخ کے اِس نادر نمونے کو محفوظ بنانےکے لیے شہر کوبہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
اینڈیور کو لاس انجلیس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ہوتے ہوئے سائنس سینٹر تک لانے کے لیے مزدوروں کو تقریباً 400 درختوں کو کاٹنا پڑے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ راستے میں آنے والے اِن درختوں کے ہوتے ہوئےیہ ممکن نہیں ہوگا کہ 24میٹر لمبی شٹل کو 19کلومیٹر طویل رستے سے گزارا جائے۔
تاہم، دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اِن میں سے کچھ درخت 100سے زائد برس قدیم ہیں، جن کی طفیل مضافات کی رونق قائم ہے۔
ایک شخص نے کہا کہ مجھے اس بات سے سخت چِڑ ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے۔اُن کے بقول، ’اگر یہی کرنا ہے تو درختوں کو اپنی جگہ سے ہٹا ؤ، لیکن اُنھیں کاٹو نہیں‘۔
دوسرے کا کہنا تھا کہ، ’نہیں، نہیں، نہیں۔ اِنھیں بالکل نہ چھیڑو، بلکہ یہیں رہنے دو۔ یہ افسوس کا مقام ہے، کیونکہ اپنے طور پر Inglewoodخود تاریخ کا ایک حصہ ہے‘۔
انگلووڈ، کیلی فورنیا میں لاس انجلیس کے قریب واقع ہے۔ کیلی فورنیا کے میئر جیمز بٹ نےکہا کہ پرانے درختوں کا ہٹایا جانا دراصل شہر کے لیے بہتر ہوگا۔
اُن کے بقول، حقیقت یہ ہے کہ ہم تاریخ کے ایک باب کو زندہ رکھنے کی جستجو میں حصہ ڈال رہے ہیں، جسے دوبارہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ اور اِس کے علاوہ، ہمیں ایک نیا اِنگلووڈ مل جائے گا جو نیا اور زیادہ سبز ہوگا۔
کیلی فورنیا سائنس سینٹر نے اِس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ گرائے جانے والے ہر درخت کے بدلے دو نئے درخت اگائے گا، اور شہر کی سڑکوں میں عام بہتری لانے کے اقدام کرے گا۔
تاہم، مکینوں کا کہنا ہے کہ مضافات کی کھوئی ہوئی خوبصورتی بحال کرنےمیں کئی سال لگ جائیں گے۔
تاہم، وہاں کے کچھ مکینوں کا کہنا ہے کہ تاریخ کے اِس نادر نمونے کو محفوظ بنانےکے لیے شہر کوبہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
اینڈیور کو لاس انجلیس انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ہوتے ہوئے سائنس سینٹر تک لانے کے لیے مزدوروں کو تقریباً 400 درختوں کو کاٹنا پڑے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ راستے میں آنے والے اِن درختوں کے ہوتے ہوئےیہ ممکن نہیں ہوگا کہ 24میٹر لمبی شٹل کو 19کلومیٹر طویل رستے سے گزارا جائے۔
تاہم، دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اِن میں سے کچھ درخت 100سے زائد برس قدیم ہیں، جن کی طفیل مضافات کی رونق قائم ہے۔
ایک شخص نے کہا کہ مجھے اس بات سے سخت چِڑ ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے۔اُن کے بقول، ’اگر یہی کرنا ہے تو درختوں کو اپنی جگہ سے ہٹا ؤ، لیکن اُنھیں کاٹو نہیں‘۔
دوسرے کا کہنا تھا کہ، ’نہیں، نہیں، نہیں۔ اِنھیں بالکل نہ چھیڑو، بلکہ یہیں رہنے دو۔ یہ افسوس کا مقام ہے، کیونکہ اپنے طور پر Inglewoodخود تاریخ کا ایک حصہ ہے‘۔
انگلووڈ، کیلی فورنیا میں لاس انجلیس کے قریب واقع ہے۔ کیلی فورنیا کے میئر جیمز بٹ نےکہا کہ پرانے درختوں کا ہٹایا جانا دراصل شہر کے لیے بہتر ہوگا۔
اُن کے بقول، حقیقت یہ ہے کہ ہم تاریخ کے ایک باب کو زندہ رکھنے کی جستجو میں حصہ ڈال رہے ہیں، جسے دوبارہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ اور اِس کے علاوہ، ہمیں ایک نیا اِنگلووڈ مل جائے گا جو نیا اور زیادہ سبز ہوگا۔
کیلی فورنیا سائنس سینٹر نے اِس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ گرائے جانے والے ہر درخت کے بدلے دو نئے درخت اگائے گا، اور شہر کی سڑکوں میں عام بہتری لانے کے اقدام کرے گا۔
تاہم، مکینوں کا کہنا ہے کہ مضافات کی کھوئی ہوئی خوبصورتی بحال کرنےمیں کئی سال لگ جائیں گے۔