واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس پیر کے روز ختم ہو گیا ۔ ہفتے بھر کی تقریروں اور میٹنگوں میں بیشتر توجہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ ، اسلام کے حوالے سے فرضی خوف و دہشت پھیلانے کی مہم یعنی اسلامو فوبیا، شام کی صورتِ حال ، ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور مالی کی حکومت کی مدد کے لیے فوج بھیجنے کی کوششوں پر مرکوز رہی ۔
امریکہ کے صدر براک اوباما جنرل اسمبلی میں سب سے پہلے تقریر کرنے والوں میں شامل تھے ۔ انھوں نے دوسرے لیڈروں پر زور دیا کہ وہ اس تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کریں جو اس وڈیو کی وجہ سے شروع ہوا جس میں اسلام کا مضحکہ اڑایا گیا ہے۔ درجنوں ملکوں میں اس وڈیو پر احتجاج ہوئےہیں جن میں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کہا کہ کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جنہیں بے گناہ افراد کی ہلاکت کے لیے بہانہ بنایا جا سکے ۔ کوئی ایسا وڈیو نہیں ہے جو کسی سفارت خانے پر حملے کا جواز بن سکے۔کوئی ایسی اہانت آمیز بات نہیں ہے جو لبنان میں ایک ریستوراں کو جلانے، یا تیونس میں کسی اسکول کو تباہ کرنے، یا پاکستان میں ہلاکت خیزی اور تباہی کا جواز بن سکے ۔
مسٹر اوباما نے ایران کو اس کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام پر انتباہ کیا اور یوں اسرائیل کو اطمینان دلانے کی کوشش کی ۔ انھوں نے کہاکہ مجھے صاف طور سے یہ بات کہنے دیجیئے ۔۔ امریکہ سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلے کو طے کرنا چاہتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے اب بھی وقت اور گنجائش موجود ہے ۔ لیکن ہمارے پاس لا محدود وقت نہیں ہے ۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی تقریر کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ایرانی حکومت کو یورینیم اس حد تک افژودہ کرنے سے روکنے کے لیے جو نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے لیے ضروری ہے، وقت ختم ہوتا جا رہا ہے ۔
مسٹر نیتن یاہو نے بم کو ایک کارٹون کی شکل میں پیش کیا جس کا انٹرنیٹ پر خوب مذاق اڑایا گیا ۔ لیکن اس کارٹون کے ذریعے وہ اس معاملے کو اخبارات کے صفحہ اول پر لانے میں کامیاب ہو گئے ۔ اسرائیلی لیڈر نے بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام نہ صرف ان کے ملک کے لیے، بلکہ ساری دنیا کے لیے خطرناک ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگلے موسمِ بہار تک، یا زیادہ سے زیادہ اگلی گرمیوں تک، افژودگی کی موجود ہ شرح سے، وہ یورینیم کو درمیانی سطح تک افژودہ کر لیں گے اور پھر آخری مرحلے کی طرف پیش رفت کریں گے ۔ اس کے بعد، صرف چند مہینوں میں، یا شاید چند ہفتوں میں، ا ن کے پاس اتنا یورینیم جمع ہو جائے گا جو پہلا بم بنانے کے لیے کافی ہو گا۔
مسٹر نیتن یاہو کی تقریر سے ، اسی روز فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی تقریر پس منظر میں چلی گئی ۔ اس تقریر میں انھوں نے جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کو بہتر حیثیت دے جانےکامطالبہ کیاتھا۔
یہ تقریر ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کی تقریر پر بھی غالب آ گئی ۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اپنے نئے عالمی نظام کے تصور کو دہرایا جو انھوں نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
لیکن شام کی خانہ جنگی بین الاقوامی ایجنڈے میں سر فہرست رہی ۔ درجنوں لیڈروں نے خونریزی کو روکنے اور ڈائیلاگ شروع کرنے پر زور دیا ۔
شام کے وزیرِ خارجہ ، ولید معلم ، اس سالانہ میٹنگ کے آخر مقرروں میں شامل تھے ۔ انھوں نے اپنی حکومت کےموقف کودہرایا کہ غیر ملکی جنگجو اور دہشت گرد اس تشدد کے ذمہ دار ہیں جس کے نتیجے میں شام میں 20,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔
شام کے چوٹی کے سفارتکار نے پناہ گزینوں کے بحران پر بھی شک و شبہے کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں 300,000 شامی ملک چھوڑ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بحران ان مسلح گروپوں کی کارستانی ہے جنھوں نے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو فرار ہوکر ہمسایہ ملکوں میں چلے جانے پر اکسایا ہے ۔
حکومت کے مخالف ایک شامی گروپ نے شامی وزیرِ خارجہ کے تقریر کو خود فریبی قرار دیا اور صدر بشا ر الاسد کی حکومت پر الزام لگایا کہ اسے کوئی با معنی اصلاح کرنے یا مکالمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
اس ہفتے کے دوران، افریقہ کے کئی بحران بھی زیرِ بحث آئے ۔ ان میں صومالیہ میں سیاسی تبدیلی، دونوں سوڈانوں کے درمیان حل طلب مسائل، اور شمالی مالی میں تشدد شامل ہے ۔ فرانس اور امریکہ نے افریقی امن فوج کی مدد پر زور دیا تا کہ امن و امان قائم ہو سکے ۔ انھوں نے کہا کہ Tuareg عسکریت پسندوں اور القاعدہ سے وابستہ دہشت پسندوں سے ساحل کے پورے علاقے کا استحکام خطرے میں پڑ گیا ہے ۔
ایک خوش آئند لمحہ وہ تھا جب پانچ عشروں میں برما کے پہلے سویلین صدر تھین سین نے تقریرکی ۔ انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ برما کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں ۔ انھوں نے کہا کہ ان کا ملک جمہوریت کی جس راہ پر چل پڑا ہے، اسے ترک نہیں کرے گا۔
امریکہ کے صدر براک اوباما جنرل اسمبلی میں سب سے پہلے تقریر کرنے والوں میں شامل تھے ۔ انھوں نے دوسرے لیڈروں پر زور دیا کہ وہ اس تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کریں جو اس وڈیو کی وجہ سے شروع ہوا جس میں اسلام کا مضحکہ اڑایا گیا ہے۔ درجنوں ملکوں میں اس وڈیو پر احتجاج ہوئےہیں جن میں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کہا کہ کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جنہیں بے گناہ افراد کی ہلاکت کے لیے بہانہ بنایا جا سکے ۔ کوئی ایسا وڈیو نہیں ہے جو کسی سفارت خانے پر حملے کا جواز بن سکے۔کوئی ایسی اہانت آمیز بات نہیں ہے جو لبنان میں ایک ریستوراں کو جلانے، یا تیونس میں کسی اسکول کو تباہ کرنے، یا پاکستان میں ہلاکت خیزی اور تباہی کا جواز بن سکے ۔
مسٹر اوباما نے ایران کو اس کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام پر انتباہ کیا اور یوں اسرائیل کو اطمینان دلانے کی کوشش کی ۔ انھوں نے کہاکہ مجھے صاف طور سے یہ بات کہنے دیجیئے ۔۔ امریکہ سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلے کو طے کرنا چاہتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے اب بھی وقت اور گنجائش موجود ہے ۔ لیکن ہمارے پاس لا محدود وقت نہیں ہے ۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی تقریر کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ایرانی حکومت کو یورینیم اس حد تک افژودہ کرنے سے روکنے کے لیے جو نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے لیے ضروری ہے، وقت ختم ہوتا جا رہا ہے ۔
مسٹر نیتن یاہو نے بم کو ایک کارٹون کی شکل میں پیش کیا جس کا انٹرنیٹ پر خوب مذاق اڑایا گیا ۔ لیکن اس کارٹون کے ذریعے وہ اس معاملے کو اخبارات کے صفحہ اول پر لانے میں کامیاب ہو گئے ۔ اسرائیلی لیڈر نے بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام نہ صرف ان کے ملک کے لیے، بلکہ ساری دنیا کے لیے خطرناک ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگلے موسمِ بہار تک، یا زیادہ سے زیادہ اگلی گرمیوں تک، افژودگی کی موجود ہ شرح سے، وہ یورینیم کو درمیانی سطح تک افژودہ کر لیں گے اور پھر آخری مرحلے کی طرف پیش رفت کریں گے ۔ اس کے بعد، صرف چند مہینوں میں، یا شاید چند ہفتوں میں، ا ن کے پاس اتنا یورینیم جمع ہو جائے گا جو پہلا بم بنانے کے لیے کافی ہو گا۔
مسٹر نیتن یاہو کی تقریر سے ، اسی روز فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی تقریر پس منظر میں چلی گئی ۔ اس تقریر میں انھوں نے جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کو بہتر حیثیت دے جانےکامطالبہ کیاتھا۔
یہ تقریر ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کی تقریر پر بھی غالب آ گئی ۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اپنے نئے عالمی نظام کے تصور کو دہرایا جو انھوں نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
لیکن شام کی خانہ جنگی بین الاقوامی ایجنڈے میں سر فہرست رہی ۔ درجنوں لیڈروں نے خونریزی کو روکنے اور ڈائیلاگ شروع کرنے پر زور دیا ۔
شام کے وزیرِ خارجہ ، ولید معلم ، اس سالانہ میٹنگ کے آخر مقرروں میں شامل تھے ۔ انھوں نے اپنی حکومت کےموقف کودہرایا کہ غیر ملکی جنگجو اور دہشت گرد اس تشدد کے ذمہ دار ہیں جس کے نتیجے میں شام میں 20,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔
شام کے چوٹی کے سفارتکار نے پناہ گزینوں کے بحران پر بھی شک و شبہے کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں 300,000 شامی ملک چھوڑ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بحران ان مسلح گروپوں کی کارستانی ہے جنھوں نے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو فرار ہوکر ہمسایہ ملکوں میں چلے جانے پر اکسایا ہے ۔
حکومت کے مخالف ایک شامی گروپ نے شامی وزیرِ خارجہ کے تقریر کو خود فریبی قرار دیا اور صدر بشا ر الاسد کی حکومت پر الزام لگایا کہ اسے کوئی با معنی اصلاح کرنے یا مکالمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
اس ہفتے کے دوران، افریقہ کے کئی بحران بھی زیرِ بحث آئے ۔ ان میں صومالیہ میں سیاسی تبدیلی، دونوں سوڈانوں کے درمیان حل طلب مسائل، اور شمالی مالی میں تشدد شامل ہے ۔ فرانس اور امریکہ نے افریقی امن فوج کی مدد پر زور دیا تا کہ امن و امان قائم ہو سکے ۔ انھوں نے کہا کہ Tuareg عسکریت پسندوں اور القاعدہ سے وابستہ دہشت پسندوں سے ساحل کے پورے علاقے کا استحکام خطرے میں پڑ گیا ہے ۔
ایک خوش آئند لمحہ وہ تھا جب پانچ عشروں میں برما کے پہلے سویلین صدر تھین سین نے تقریرکی ۔ انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ برما کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں ۔ انھوں نے کہا کہ ان کا ملک جمہوریت کی جس راہ پر چل پڑا ہے، اسے ترک نہیں کرے گا۔